کورونا وائرس کی وبا نے نسلی منافرت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم موضوع ’استعماریت‘ یا ”نوآبادیات“ (کولونیل ازم) پر بحث کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ نوآبادیاتی تاریخ کو کس انداز سے دیکھنا چاہیے۔ وبا کے باعث اختیار کی گئی تنہائی نے بے چینی کو انگیخت کیا اور کئی مقامات پر پیدا ہونے والے تنازعات میں تشدد کا عنصر شامل ہوگیا۔ کولمبیا میں مظاہرین جنوبی کیرولینا کے دارالحکومت سے کنفیڈریشن کا پرچم اتارنے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ امریکا کی دیگر چار ریاستوں ٹیکساس، مسی سپی، ورجینیا اور ٹینسی میں بھی ایسے مظاہرے ہوئے۔
جنوبی ریاستوں میں یہ پرچم خانہ جنگی اور غلامی و نسل پرستی کی علامت بن گیا۔ کینیڈا میں ہالیفیکس اور وکٹوریا کے علاقوں میں ایڈورڈ کورنوالس اور جون اے مکڈونلڈ کے مجسمے گرادئیے گئے۔ جنوبی افریقا میں ”رہوڈس کو گرانا ہوگا“ کے نعرے نے تحریک کی شکل اختیار کی اور کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں نصب برطانوی سامراجی سیسل رہوڈس کا مجسمہ ہٹا دیا گیا۔ ایسے مجسمے اور یادگاریں گزشتہ ایک دہائی میں پیدا ہونے والے سیاسی تنازعات کا مرکزی نقطہ بن کر سامنے آئیں ہیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر ہمیلٹن میں سامراجی فوج کے کمانڈر ہیملنٹن کا مجسمہ گرادیا گیا۔
یہ شہر اسی کمانڈر کے نام سے منسوب ہے۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ ہیملٹن بحریہ کا کمانڈر تھا اور اس نے انیسویں صدی میں برطانوی نوآبادیات کی توسیع کے خلاف برسر پیکار ماؤری قبیلے سے جنگ کی قیادت کی تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں کولمبس کا مجسمہ مسمار کیا گیا۔ متنازعہ یادگاروں کا معاملہ اکیسویں صدی تک محدود نہیں۔ تاریخ میں سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کے ساتھ یادگاروں کے تہ و بالا ہونے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نازی حکومت کی یادگاریں ختم کی گئیں۔ اسی طرح سوویت یونین اور جنوبی افریقا میں اپارتھیڈ کے خاتمے کے بعد بھی کئی یادگاریں ختم ہوئیں اورکئی نئی قائم ہوئیں۔ مجسموں اور یاد گاروں کی مسماری کو ”تاریخ مٹانے“ کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ اس حوالے سے انگنت تبدیلیوں کی گواہ ہے۔
بھارت اور پاکستان میں اس استعماری ورثے کے حوالے سے سنجیدہ سوچ بچار نہیں کی گئی اور ترکے میں ملنی والی پارلیمانی جمہوریت کی اپنی تہذیب و ثقافت سے عدم مطابقت کا سوال کامیابی سے دبا دیا گیا۔ انگریز نے خطے میں جاگیرداری نظام کو اپنی حکمرانی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا اور ”تقسیم کرو اور راج کرو“ کی پالیسی میں اس سے مدد لی۔ کچھ ردّ و بدل کے ساتھ پاکستان میں انگریز دور کی جاگیرداری باقی ہے اور اسی دور کی نوکر شاہی بھی گرتی پڑتی قائم ہے۔ باقی دنیا میں جاگیرداری ختم ہوچکی یا آخری سانسیں لے رہی ہے لیکن پاکستان میں اقتدار کے نظام میں ایک کاروباری رشتے کے ساتھ یہ تاحال قائم ہے۔
جاگیرداری نظام کے تسلسل برقرار رہا تو پاکستان کی ریاست آزاد مملکت ہونے کے باجود جرائم پیشہ ہوجائے گی۔ نوآبادیاتی تاریخ کی پرکھ نہ کی جائے تو یہ برطانوی سلطنت کے اس مؤقف کی تائید کرتی ہے جس کے مطابق وہ دنیا کو مہذب کرنے کے مشن پر نکلے تھے۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ انگریز نے ہمیں ریلوے کا نظام، صنعتیں اور جدید تعلیم سے روشناس کروایا۔ پاکستان ان سابقہ نوآبادیات میں شامل ہے جہاں کئی نو آبادیاتی بیانیے اور قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) جیسے قوانین کے استعماری ورثے برقرار رہے اور ملک کے عدم استحکام کا باعث بنے۔
اگرچہ فاٹا اور ایف سی آر کی جگہ متبادل انتظام و انصرام لانے کا عمل شروع ہوچکا ہے تاہم دیگر نوآبادیاتی عناصر اب بھی باقی ہیں۔ ہمارے لیے کئی اعتبار سے ہماری آزادی رسمی اور نامکمل ہے۔ بحیثیت قوم اپنی تفہیم کے لیے ہمیں استعماریت سے جان چھڑانا ہوگی اور اپنی تاریخ سے یہ گرد ہٹا کر اصل شکل واضح کرنا ہوگی۔ برطانوی نوآبادیات کی ابتدا سولہویں صدی میں ہوئی جب تاج برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک مشترکہ تجارتی کمپنی کے طور پر ”مشرقی ہندوستان“ پر کاروباری اجارہ داری دینے کی منظوری دی۔ مشرقی ہندوستان میں ہندوستان کے ساتھ چین بھی شامل تھا۔
1613سے اس کمپنی نے مختلف ساحلی علاقوں میں تجارتی چوکیاں قائم کیں اور دنیا کی آدھی تجارت اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اسے بالخصوص کپاس، ریشم، نیل، نمک، مسالوں، اشیائے ضروریہ، شورے، چائے اور افیون سمیت اشیائے ضروریہ پر اجارہ داری حاصل تھی۔ اس وقت مغل سلطنت قائم تھی اور تجارت کے لیے کمپنی کو مغل شہنشاہ کی اجازت درکار تھی۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں مغلیہ ہندوستان دنیا کی مجموعی معیشت میں 23فی صد حصہ رکھتا تھا اور یہ یورپ کی مجموعی معیشت سے بھی زیادہ تھا۔ 1947میں جب انگریز نے ہندوستان چھوڑا تو دنیا کی معیشت میں اس کا حصہ سکڑ کر صرف تین فی صد رہ گیا تھا۔ برطانوی سامراج نے انگریزوں کو مالا مال کیا اور ہندوستان کو کنگال!
اٹھارہویں صدی میں اس تجارتی کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی و عسکری تنازعات میں دخل اندازی شروع کردی اور ہندوستانی علاقوں پر قبضہ بھی شروع کردیا۔ یہ تمام سرگرمیاں تجارتی کمپنی کے دائرہ کار میں نہیں آتی تھیں۔ اس تاریخ کو دو بہترین کتابوں میں دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ ان میں پہلی ولیئم ڈلرمپل کی ”دی انارکی“ اور دوسری ششی تھرور کی کتاب ”این ایرا آف ڈارکنیس“ ہے۔ سیاسی طور پر کمزور مغل شہنشاہ شاہ عالم دوم کی جاری کردہ دیوانی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو محصولات جمع کرنے کا اختیار اور پس پردہ بنگال کی حکمرانی مل گئی۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ کمپنی کا اقتدار پورے برصغیر پر پھیل گیا۔ 1858میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار ختم کرکے ہندوستان میں یہاں کے زمینی حالات سے عدم مطابقت رکھنے والے برطانوی قوانین نافذ کردئیے گئے۔ اس سے پہلے ہندوستان میں زمین کی نجی ملکیت نہیں تھی۔ یہ نظام لانے کے ساتھ مقامی آبادی کے کلچر اور سماجی روایت میں دخل اندازی کی گئی۔ ہندوستان کی منڈیوں میں اپنی مصنوعات لانے کے لیے برطانوی راج نے مہلک ترین حملہ یہ کیا کہ مقامی صنعتوں کو ختم کردیا۔ 1853میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ ہاتھ سے چلنے والی کھڈیاں اور چرخے اس سماجی ڈھانچے کا محور تھے۔
برطانیہ نے ہندوستان کی کھڈیاں اور چرخے کو تباہ کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریز نے ہندوستان میں پیدا ہونے والی کپاس کو سوچے سمجھے منصوبے اور سفاکی کے ساتھ یورپی منڈیوں میں برآمد کرنا شروع کردیا۔ صنعتی دنیا کے لیڈر سے ہندوستان کو صرف ایک خریدار بنا دیا گیا۔ انگریزوں نے ہندوستان میں خوراک کے قحط بھی متعارف کروائے جن میں لاکھوں اموات ہوئیں۔ ہندوستان میں انگریزوں نے آخری قحط 1942میں پیداکیاجب دوسری عالمی جنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے آسٹریلیا سے بھارت کے لیے حاصل کی گئی گندم کی کھیپ برطانیہ بھجوادی۔
ہندوستان میں 200 برس تک برطانیہ کی حکمرانی اور لوٹ مار جاری رہی۔ مٹھی بھر برطانوی افسران اور فوجیوں نے، جن کی تعداد 20ہزار تھی، تیس کروڑو ہندوستانیوں پر حکمرانی کی۔ ہندوستان میں مختلف پیشوں اور کاروبار سے وابستہ مجموعی طور پر تین لاکھ انگریز تھے۔ اسے عام طورپر اس بات کا ثبوت سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستانیوں نے برطانوی راج کو تسلیم کرلیا تھا۔ ہندوستانی راجاؤں، مقامی لیڈروں کے تعاون اور ہندوستانی فوجیوں، پولیس اہل کاروں، سرکاری ملازمین کے بغیر انگریز اس خطے پر حکمرانی نہیں کرسکتے تھے۔