|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2020

مقام شکر ہے کہ سینٹ سے قرار داد کی منظوری اور گورنر سیکرٹریٹ سے صوبے کے تمام اضلاع کے انتظامی آ فیسران کے نام لکھے گئے مراسلے کے بعد بلوچستان بھر کے اضلاع میں صوبے کے کوٹہ پر وفاقی محکموں میں ملازمتیں حاصل کرنے والے افراد کے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکٹس کی دوبارہ تصدیق کا آغاز کردیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر جعلی اور بوگس ڈومیسائل کا انکشاف ہوا ہے۔

جس کے تحت غیر بلوچستانیوں خصوصاً سندھ‘ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے افراد نے بلوچستان کی سرحدوں سے ملحق ہونے کے ناطے”حق ہمسائیگی“ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئٹہ‘ ڈیرہ بگٹی‘ لورالائی‘ژوب‘ جعفر آباد‘زیارت سے وفاقی محکموں‘ قومی اسمبلی‘ سینٹ‘ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد،وفاقی محکمہ اطلاعات‘ ریلوے‘داخلہ‘ پورٹ اینڈ شپنگ‘ نیشنل ہائی ویز‘ وفاقی پولیس‘ اسلام آباد پولیس سمیت بیرون ملک سفارتخانوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹی ملازمتوں سمیت بڑی ملازمتیں بھی حاصل کررکھی ہیں۔یہ گورکھ دھندہ چند سالوں پر محیط نہیں۔

بلکہ ان میں ان غیر بلوچستانیوں کی اولادیں بھی شامل ہیں جو سردار عطاء اللہ مینگل کے دور وزارت اعلیٰ کے موقع پر 1973ء کی دہائی میں بلوچستان میں آباد دیگر صوبوں کے ملازمین نے ہڑتال کرکے اپنی ملازمتیں اپنے اپنے صوبوں میں حاصل کرکے بلوچستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کہ انہیں تعصب کی بنیاد پر بلوچستان سے نکالاگیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس کچھ یوں تھی کہ سردارعطاء اللہ مینگل نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وفاق سے یہ کہا کہ جو ملازمتیں غیر بلوچستانیوں کو صوبے میں دی گئیں ہیں۔

انہیں ان کے اپنے صوبوں میں بھیج کر بلوچستان کے نوجوانوں کو صوبے میں ”پہلی بار ملازمتیں“ دینے کے لئے ان سے تعاون کیا جائے تاکہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان غیر بلوچستانیوں کی ملازمتوں پر تعینات کیا جائے۔چونکہ صوبے میں یہ پہلی جمہوری حکومت قائم ہوئی تھی، سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت پر بلوچستان کے نوجوانوں کی جانب سے ملازمتوں کے حصول کیلئے بے حد دباؤ بھی تھا،صوبے میں اتنے محکمے نہ تھے کہ ان نوجوانوں کو ان میں کھپایا جاسکتا اس لیے صوبے میں دستیاب ملازمتوں کے ساتھ وفاقی محکموں میں بھی بلوچستان کے نوجوانوں کو کھپانے کی کوشش کا ”جرم“ کرتے ہوئے نیپ حکومت نے کچھ اقدامات کیے تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جو شروع دن سے نیپ حکومت کے قیام پر نہ صرف ناخوش تھے۔

بلکہ وفاقی اسٹیبلشمنٹ بھی اس حکومت سے نالاں تھی،نیپ کی یہ حکومت انہیں ایک آنکھ بھی نہیں بھارہی تھی اس کو ناکام کرنے کی ہر طرح اور ہرسطح پر کوششوں کا آغاز کیا گیا یہی وجہ ہے کہ یہ حکومت جو بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت تھی محض نو مہینے میں سازشوں کا شکار ہو کر بر خاست کی گئی۔اس اہم سانحہ کی تلخی بلوچستانیوں میں بڑی شدو مد کے ساتھ آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے سازش کے تحت بلوچستان پولیس اور اساتذہ میں نیپ حکومت کو بدنام کرنے کیلئے ہڑتالیں کی گئیں۔اس وقت کے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے کوئٹہ کا بذریعہ ٹرین دورہ کیا۔

اورنیپ حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے گورنر ہاؤس جانے سے انکار کیا اور ٹرین میں ہی ایک دو روز قیام کرکے نیپ حکومت کو بدنام کرنے میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ نتیجے میں غیر بلوچستانیوں نے ملازمتوں سے ہڑتال کی اور اپنے اپنے صوبوں کو رخت سفر باندھا تاکہ نیپ حکومت کو عالمی سطح پر نہ صرف بدنام کیاجائے بلکہ ایک لحاظ سے اسے برخاست کیا جاسکے۔ یہ تمام ملازمین (غیر بلوچستانی) اس سازش کا حصہ بنے انہوں نے اپنی اپنی ملازمتوں سے اپنے اپنے صوبوں کو جانا شروع کیا تاکہ نیپ حکومت دھڑام سے زمین بوس ہوجائے اور ہوا بھی یہی، ذوالفقار علی بھٹو اور وفاقی اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔

حکومت کو نو ماہ میں برخاست کردیا گیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ”ان غیر بلوچستانیوں“ نے اپنے اپنے صوبوں میں ملازمتیں تو حاصل کر لیں لیکن آج تک بلوچستان کے ڈومیسائل سے نہ صرف خود بلکہ ان کی اولادوں نے بھی وفاقی محکموں میں ”بلوچستان کے کوٹہ“ پر بھر پور ملازمتیں حاصل کیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ چہ جائیکہ اس کے بعد بلوچستان میں موجود وفاقی اداروں کے ان غیر بلوچستانی افسران نے اپنے بلوچستان میں تعیناتی کا بھر پور فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنے عزیز رشتہ داروں کے نا م سے ان اضلاع سے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکٹس حاصل کیے جن کی تعداد آج ہزاروں میں ہے۔

حتیٰ کہ ایک بار یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ سندھ کے ایک سابق چیف سیکرٹری”میمن“ صاحب بھی بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر سی ایس ایس میں کامیاب ہو کر ملازمت حاصل کی اور چیف سیکرٹری سندھ بھی بنا۔اسی طرح ایک ڈپٹی سیکرٹری قومی اسمبلی میں نیازی صاحب ہوا کرتے تھے انہوں نے پنجاب ڈومیسائل پر قومی اسمبلی میں ملازمت حاصل کی اس کے ”سپوت“ نے بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بلوچستان کے کوٹہ پر اپنے ”اباجی“ کے ہی محکمے میں ملازمت حاصل کی۔

اس سے بڑھ کر اور صوبے کے ساتھ زیادتی کی کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ ”ابا جی“ پنجاب اور”سپوت“ بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر ایک ہی ادارے میں جاب کرتے ہوں اور ان سے کوئی باز پرس بھی نہ ہو۔ چند سال پہلے بلوچستان کے ہی ایک بلوچ سینیٹر صاحب نے اپنے گھریلو ڈرائیور اور ان کی اہلیہ کو پنجاب کا ڈومیسائل رکھتے ہوئے بھی ”بلوچستان ہاؤس اسلام آباد“ میں سرکاری طورپر ڈرائیور اور اہلیہ کو ٹیلی فون آپریٹر بھرتی کروایا جو آج بھی بلوچ سینیٹر صاحب کے ذاتی ڈیوٹی پر ہیں جبکہ انہیں تنخواہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی بلوچستان کے خزانہ سے دی جارہی ہے۔

ایسے مظالم کی درجنوں داستانیں ہیں مجھے نہیں لگتا کہ ان جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں حاصل کرنے والوں کو ان کے گھر بھیجا جائے گا بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے ڈومیسائل اور ملازمتیں بچانے کے لئے ابھی سے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیا ہے۔ یہ کوئی لاوارث لوگ نہیں ہوں گے لاوارث تو بلوچستان کا صوبہ ہے کہ جس کے ساحل اور وسائل آج بھی ان کے اپنے دسترس میں نہیں بقول سردار اخترمینگل یہ صوبہ یا تو مفتوحہ ہے یا مقبوضہ‘ آج وفاقی اداروں پر نظر دوڑائیں کہ کتنے بلوچستان کے وفاقی سیکرٹریز ہیں۔

سفارتخانوں میں کتنے بلوچستانی تعینا ت ہیں دور دور تک کوئی بلوچستانی وفاقی سیکرٹری اور سفیر نہیں ملے گا۔یہ ہماری خوش فہمی ہے کہ بلوچستان کی اشک شوئی کی جائے گی چاہے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم ہوں‘ نواز شریف یا عمران خان، اس صوبے کے مقدر میں پسماندگی اورصرف پسماندگی لکھی ہے۔ بقول رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ اگر بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو آج بلوچستان دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا۔ یہ بات حقیقت بھی ہے اور ان کی بات دل کو بھی لگتی ہے جب بلوچستان کے فیصلے بلوچستانیوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوں گے تو یہ پسماندگی ان کا تا قیامت پیچھا کرتی رہے گی۔