معزز قارئین! درج بالا جملہ اکثر مختلف موبائل نیٹ ورک کی کمپنیوں کی طرف سے بھی آتی ہے اور اکثر دیواروں پر بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں تو ہمیشہ زیر بحث بھی رہتی ہے، یہ اس لیے تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہو اور وہ نشہ جیسی لعنت سے بچ جائیں، نشہ سے بچنے کا مطلب زندگی کا بچ جانا ہے، کیونکہ نشہ ایک ایسی لعنت ایک ایسی خرابی، ایک ایسی بربادی ہے کہ اس کے ساتھ ہی تمام برائیاں، بربادیاں جنم لیتی ہیں۔
ایک شوہر، ایک باپ، ایک بیٹا یا ایک شہری نشہ کی لت میں پڑتے ہی نہ صرف اپنی تمام ذمہ داریوں کو فراموش کردیتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بن کے معاشرے کو اپنی تباہ کاریوں کا نشانہ بناتا ہے، اور معاشرے میں، امن، سکون، خوشحالی سب غارت ہوجاتی ہے، لیکن ایک صحت مند اور پْر امن معاشرے کی فراہمی تو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور ریاست اپنی اس ذمہ داری کو مختلف اداروں کے ذریعے پورا کرتی ہے، لیکن ایک عرصہ ہوئے ہمارا معاشرہ (یہاں معاشرے سے مراد علاقہ ہے) مختلف منشیات کا اڈہ بن چکا ہے۔
آپ اس معاشرے کو پْر امن کہاں اور کیسے رکھ سکتے ہیں جہاں ہر گلی اور محلے میں منشیات کے اڈے کھلے ہوں؟ جس معاشرے میں منشیات فروشوں کو عزت اور کھلی چھوٹ ملے، جہاں منشیات فروشوں کو چند خاص مقاصد کے لئے آزاد فضا فراہم کی جائے، جہاں منشیات فروشوں کو سزائے موت کے بجائے باعزت زندگی بخش دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس معاشرے میں تباہی اور بربادی عام ہوجاتی ہے، تو پھر ایسے معاشروں میں ہر روز پہلے سے فاقہ زدہ کلثوموں کو موت کی سولی پہ چھڑا کے کئی مکتوم اور معصوموں کو یتیم بنانے میں کسی کو شرم بھی محسوس نہیں ہوگی۔
کیا انصاف محض ایک قاتل کی گرفتاری ہے؟ یا ایسے تمام ذرائع کا قلع قمع کرنا ہے کہ جن کی بنیاد پہ یہ تمام جرائم سر اٹھا رہے ہیں؟کیا ریاست بھی اب اس لالچی عورت کی طرح بن گئی ہے جو گھروں میں منشیات کے اڈے کھول کر اپنے اور دوسروں کی نسلوں کو چند پیسوں (چند مقاصد) کی خاطر تباہ کرتی ہے؟ اگر ایسا ہوا تو یاد رکھیں کہ منشیات زدہ ایک ایسی نسل اٹھے گی جو خود ریاست کے لیے درد سر بنے گی، لہذا اب بھی وقت ہے کہ ریاست مادر پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوے نشہ سے پاک اور صاف معاشرے کو یقینی بنائے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو بھی منشیات فروشی کی رعایت نہ ملے اور جو بھی منشیات فروشی میں کسی بھی طرح ملوث پایا جائے۔
اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے، یہ نہیں کہ چند دنوں کے لیے منشیات فروشوں کو گرفتار کر کے پھر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ویسے تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔۔ تو ریاست مدینہ میں منشیات فروشوں کی کیا سزا ہے؟ تو یہ سزا یہاں کیوں نہیں؟کیوں منشیات عام کردی گئی ہے؟ حکومتی اور ریاستی تمام اداروں کی موجودگی کے باوجود منشیات بچے بچے کی پہنچ تک کیوں ہے؟ اگر ایک سات سالہ بچے کو پچاس روپیہ دے کر باہر کرسٹال لینے بھیج دو تو وہ بھی چند سکینڈ بعد کرسٹال لیکر حاضر ہوگا، اس طرح منشیات کیوں عام کردی گئی ہے؟ ایک طبقہ کی خوشحالی کے لیے کیوں پورے معاشرے کو منشیات کی لعنت زدہ جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے؟
شہید کلثوم کے کیس کے سلسلے میں گزشتہ کچھ دنوں کچھ سرگرمی دیکھنے کو ملی جو اچھی بات اور اچھی پیش رفت ہے لیکن منشیات کے عادی، یا صرف وہ لوگ جو دوسروں کا مال چند پیسوں کے عوض بھیجتے ہیں محض ان کی گرفتاری سے مسئلہ حل نہیں ہونے والابلکہ ان تمام لوگوں کو بھی قانون کی گرفت میں لا کر کڑی سزا دی جائے جو خود تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن انھوں نے پورے معاشرے کو منشیات کی لپیٹ میں دے کر بہت سارے گھروں کو تباہی اور بربادی میں ڈبو دیا ہے، اس طرح کے لوگوں کو معاشرے میں آزاد گھومنے کا کوئی حق نہیں جنھوں نے معاشرے کو تباہی اور بربادی کا مسکن بنادیا ہے۔ اپنی چند ضرورتوں کی حصول کے لیے جو لوگ دوسروں کی ہزار ضرورتوں پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں ایسے لوگوں سے معاشرے میں رہنے کا حق بھی چھین لینا چاہئے تاوقتیکہ وہ سدھر نہ جائیں۔