حوصلہ افزائی کا تعلق انسانی نفسیات ہے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ داد دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتاہے اور کام کرنے کا لگن اور دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔وہ پہلے کی نسبت زیادہ محنت اور دل جمعی سے کام کرتاہے۔مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ انسان کی فطری خواہش یہ ہے کہ اس کی تعریف اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کریں۔تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتاہے،اس کی خود اعتمادی بھی بحال رہتی ہے اور تعریف کرنے والے سے اس کا تعلق بھی بہتر ہوتا ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کو ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز سمجھا جاتاہے۔ترقی یافتہ ممالک میں اپنے مخالف کے ہر اچھے کام کو سراہا جاتاہے اور بے جا تنقید اور الزامات سے سخت گریز کیاجاتاہے۔ کسی کو مایوسی اور ڈیپریشن سے نکالنا ہی حوصلہ افزائی ہے۔امید کسی بھی انسان کے لئے ایک مضبوط سہارا ہوتاہے۔جو بھی ہوتاہے یا کسی بھی کام کوہوناہو تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی مرضی سے اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ ہمارے بس میں صرف یہ ہے کہ ہم کسی کو حوصلہ دیں،ہر کسی کی بس میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کو پہنچے سکے بلکہ ہر شخص کا اخلاقی فریضہ بنتاہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھے۔
حکومت اپنی رعایا کو حوصلہ افزائی کی تربیت دے اس کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں پر ایک زبردست عوامی مہم چلایا جائے۔یہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک زبردست روحانی رابطہ ہوگا اس سے حکومت بھی مضبوط،پائیدار اور مستحکم رہے گی اور عوام بھی نڈر اور حالات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرنے والے بن جائیں گے۔والدین اپنے بچوں کے لئے سہارا ہوتاہے وہ بچوں کو حوصلہ نہ دیں تو کون دے گا۔بچوں کی اگر تعریف کی جائے تو محنت کا عزم جوش مارتا ہے اس کے برعکس اگر والدین بچوں کو تنقیدکا نشانہ بنائیں اور ان کے ٹھیک کام کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
تو نجانے کل یہ بچے کیا بنیں گے۔اسی طرح اساتذہ اپنے شاگردوں کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ استاد مانند ایک مہربان باپ کے ہو۔طالب علم تو استاد ہی سے سیکھتا ہے ان کے نقش قدم پر چلتاہے۔ایک کمانڈر اپنے ماتحت آرمی کے لئے ہی سب کچھ ہے۔کمانڈنگ میں حوصلہ مندی ہو استقامت ہو مضبوط ارادہ ہو تو آرمی میں سب کے سب بہادری کے نمونے ہونگے۔مزدوروں کی حوصلہ افزائی کارخانہ دار اور فیکٹری کا مالک ہی کرے گا، مزدوروں کی غربت اور بیکسی کا غلط فائدہ کبھی نہیں اٹھائے گا، مزدوروں کا استحصال ایک قومی المیہ ہے اس سے ملکی مفاد اور قومی وقار کو بڑا دھچکا لگتاہے۔
وقت نے ثابت کیا ہے اور تاریخ اس کا شاہد ہے کہ وہ لوگ جن کے ذہنی سطح بہت پست تھی اور وہ جو کچھ کر دکھانے کے قابل بھی نہیں تھے نے داد لینے اور حوصلہ افزائی ملنے پر وہ کچھ کئے جو ان کے وہم اور گْمان میں بھی نہیں تھا۔حوصلہ دینے کے بہت طریقے ہیں سب سے بہتر اور افضل طریقہ وہ حوصلہ ہے جس کے لئے مال خرچ کیاجائے۔بہت سے لوگ بہت بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں مگر وہ مالی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔مثلاً کوئی چھوٹا کاروبار شروع کرتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے بطور تحفہ یا بطور قرض حسنہ کچھ نقد پیسے دیاجائے۔
ہزاروں ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے بہت چھوٹا کاروبار رشتہ داروں،دوستوں کے تعاون سے شروع کیا، بعد میں ترقی کرکے کرکے لکھ پتی بن گئے ۔آج کا دور علمی پیش رفت کا دور کہلاتا ہے لہذا تعلیمی میدان میں بہت سے سٹوڈنٹس کو مالی حوصلہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔باربار یہ بات تجربے میں آئی ہے کہ ایک سٹوڈنٹ میڈیکل ٹیسٹ میں بہت اعلیٰ نمبروں کے حصول میں کامیاب ہوجاتاہے مگر گھریلو معاشی مشکلات کی وجہ سے وہ آگے ترقی کرنے سے محروم ہوتاہے۔یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ معاشرہ ایسے باصلاحیت اور ذہین لوگوں کی افادیت سے بوجہ معاشی مشکلات کے محروم رہ جاتاہے۔
اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کرکٹ کھلاڑی کے لئے حکومت کے خزانے میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر دوسری طرف ایک ذہین اور ٹیلنٹڈ طالب علم تعلیمی بورڈ میں ٹاپ کرتاہے یا ٹاپ ٹین میں پوزیشن بناتاہے مگر اس کے لئے کوئی خاص مالی امداد بطور حوصلہ افزائی نہیں دی جاتی اس لئے بسا اوقات ان کے لئے تعلیم کو جاری اور پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔دنیا کی اس عارضی زندگی میں خوشی اور غم کا آنا لازم وملزوم ہے۔خوشی میں ہم مبارک باد نہ دیں کوئی بات نہیں مگر غم اور مصیبتوں اور مشکلات میں حوصلہ اور تسلی دینا ایک مرد مومن کے لئے فرض سے کم درجہ نہیں رکھتا۔
آج کل بہت سے طبقات احساس محرومی میں مبتلا ہیں ان کے دل پژمردہ ہیں مایوس ہیں غربت اور افلاس نے ان کے فن کا مذاق اڑایاہے۔بیوہ عورتیں، یتیم بچے، بے سہارا اور لاوارث لوگ، مریض اور جسمانی طور پر معذور لوگ، ان سب کوہم اگر مالی تعاون سے خوش اور دلاسہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم زبانی حوصلہ افزائی تو کر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی نمایاں خصلت اس کی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے مگر ہم میں سے بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہونگے جو دوسروں کو شاباشی دینے کی طاقت اور حوصلہ رکھتے ہوں۔شعر وشاعری ایک لطیف فن ہے۔
شاعر اشعاروں میں معاشرہ کی عکاسی بہت اچھے انداز میں کرتے ہیں۔شعراء نے اپنے کلام میں مفلوک الحال لوگوں کے لئے کیا کیا خوشخبریاں نہیں سنائی ہیں۔مایوس لوگوں کو مایوسی سے نکالنا اور انہیں امید کی طرف لوٹانے میں شعراء نے جو اشعار کہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، بطور مثال ساحر لدھیانوی کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں