|

وقتِ اشاعت :   July 14 – 2020

عدل و انصاف، رزق حلال مسلمانوں کی نشانی ہے اور جب ایک فیڈریشن اسلام کے نام پر بنا ہو اور جس کا مطلب ہی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہو تو پھر اس ملک میں حرام کیوں، ظلم کیوں،نا انصافی کیوں،کسی کے حق پر ڈاکہ کیوں؟ اخلاق سے گری ہوئی بات بھی نہیں سنی جانی چاہیے ایک طرف اسلام کے بلند و بالا دعوےٰ کرنا تو دوسری طرف وہ سب کچھ جو اسلام میں ممنوع ہو اس مملکت میں ہو رہا ہے۔ یہاں ظالم کو مظلوم پر، قاتل کو مقتول پر، بے ایمان کو ایماندار پر، بد اخلاق کو اخلاق والے پر، ناحق کو حقدار پر برتری حاصل ہے۔

وہ بھی اس وجہ سے کہ اس شخص کی پہنچ اچھے عہدیدار تک ہے۔انسانیت شرما گئی ہم انسانوں کو دیکھ کر جی ہاں ایک طرف ایشیا ء کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان تو دوسری طرف ان ہزاروں بیروزگاروں اور لاکھوں غریب سے غریب تر عوام اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بہ مشکل چند ایک خاندان دلاتے ہیں پھر مشکل سے سارے صوبے میں 5 فیصد نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر نوکری نہ ہونے کی وجہ سے یا سفارش کلچر کی وجہ سے غریب طلبہ اپنی ڈگری لیے دربدر پھر رہے ہوتے ہیں اور ان پر افسر شاہی بھی بمشکل ہزاروں میں سے ایک پر مہربان ہوتی ہے۔

اور نوکری دے دیتا ہے یا پھر منسٹر اور ایم پی اے صاحب مہربانی کرتے ہیں، باقی ہزاروں طالب علم رکشا یا کوئی دکان یا کوئی اور کاروبار یا روزانہ اجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔وفاقی ملازمتوں میں وفاق کی طرف سے بلوچستان کے لیے کو 6 فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے جن میں بمشکل تین فیصد سے 3.5 فیصد صوبے کے لوکل ڈومیسائل جگہ بنا لیتے ہیں باقی پر دوسرے صوبوں کے جعلی لوکل و ڈو مسائل حضرات بندر بانٹ کرتے ہیں۔یہ بات سب سے پہلے نومبر 2015 میں بلوچستان اسمبلی میں زیر بحث آئی اس کے علاوہ یہ مسئلہ ستمبر 2017 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے سٹینڈنگ کمیٹی میں اٹھائی تھی کہ بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ملازمتیں جو دوسرے صوبوں سے ان کا تعلق ہے۔

جعلی لوکل اور ڈومسائل بنا کے بھرتی ہوتے ہیں جو بہت بڑا غبن اور ظلم ہے ایک غریب صوبے کے ساتھ، ایک طرف بلوچستان میں غربت کی انتہا تو دوسری طرف صوبے کے حقوق پر ڈاکہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔سینٹ میں پشتونخواہ میپ کے عثمان کاکڑ اور نیشنل پارٹی کے کبیر محمد شہی نے بلوچستان کے کوٹے پر وفاقی وزارت اطلاعات کے اداروں میں جن میں نادرا،محکمہ تعلیم، ریلوے سمیت کئی محکموں میں کام کر رہے ہیں جعلی لوکل سرٹیفکیٹ پر دوسرے صوبوں کے افراد تعینات ہیں کا معاملہ اٹھایا تھا جن کا ریکارڈ تو موجود ہے لیکن کوئی ڈسپیچ نمبر نہیں ہے۔

ان ملازمین میں زیادہ تر کا تعلق سیالکوٹ،راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان، اسلام آباد وغیرہ سے ہے۔بلوچستان کے عوام دوسرے صوبوں میں بغیر شناختی کارڈ کے داخل نہیں ہو سکتے اور وہاں کے لوگ بلوچستان کے جعلی لوکل اور ڈومیسائل پر ملازمتیں کر رہے ہیں۔مستونگ کے ڈپٹی کمشنر محبوب احمد اچکزئی سے وفاقی محکموں میں ضلع مستونگ کے لوکل ڈومیسائل پر بھرتی 744 میں سے 344 نے رجوع کیا جن پر کمیٹی ان کی جانچ کرے گی،باقی 400 جنہوں نے تصدیق کے لئے رجوع ہی نہیں کیا کو کہیں بار نوٹس بھیجا گیا لیکن ان کی طرف سے تصدیق کے لیے کوئی نہیں آیا۔

جن پر ان کے لوکل منسوخ کیے گئے اور اس حوالے سے انہیں مطلع کیا گیا۔مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے تو حق ادا کردیا۔ اس سے بھی بڑی بات جو لوگ وفاقی ملازمین کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں ان کے بھی لو کل و ڈومیسائل چیک کیے جائیں ایسا نہ ہو ان میں بھی ایسے لوگ شامل ہوں کہ جن کے اپنے لوکل، ڈومیسائل مشکوک ہوں۔اس کے علاوہ جن لوگوں نے جعلی لوکل اور ڈومیسائل بنا کے دیے ہیں ان کو بھی تلاش کر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے اور جن لوگوں نے جعلی لوکل سے ملازمتیں حاصل کی ہیں۔

ان کو بھی قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو صوبے کے ملازمین کی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے تاکہ صوبے کے ملازمین کو ان جعلی لوکل اور ڈومیسائل جو کافی سننے میں آر ہا ہے کہ ان میں بھی ہزاروں کی تعداد میں دوسرے صوبوں کے لوگ خاص طور پر تونسہ، راولپنڈی سیالکوٹ وغیرہ کے لوگ شامل ہیں جو یہاں کے میڈیکل پی سی ایس، سی ایس ایس جیسے بڑی نوکریوں پر براجمان ہیں۔اس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو جو ابھی تک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

وکلاء اور صحافی حضرات یعنی زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ بلوچستان جیسے غریب اور پسماندہ صوبے کے نوجوان جو در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کی حق تلفی نہ ہو۔سوشل میڈیا اور اخبارات میں کہیں کہیں سے اس جعلی سازی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں جو صوبے کے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے خوشخبری ہے۔ ہم سب کو اختلافات سے بالاتر ہو کر اس مسئلے پر آواز اٹھانی چاہیے اور ان جعل ساز جن میں صوبے کے اپنے ملازمین اور اعلیٰ نوکریوں پر فائز افسران ان جعلسازوں کو لوکل اور ڈومیسائل فراہم کرنے کے جرم میں ملوث ہیں کھڑی سے کھڑی سزا عدالت سے دلوانی چاہیے۔