|

وقتِ اشاعت :   July 14 – 2020

اس دن سال 1973ماہ اگست کی بیسویں تاریخ تھی،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈ نٹس کے اراکین صبح دس گیارہ بجے کے قریب سائنس کالج کوئٹہ کے گیٹ کے سامنے جمع ہونے لگے،سائنس کالج کے دونوں گیٹوں کے باہر پولیس اور فیڈرل سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری ڈنڈوں‘بندوقوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے لیس کھڑی تھی۔ اس احتجاج میں ہمارے قائدین میں گلزار احمد بادینی جو سائنس کالج کوئٹہ یونین کے نائب صدر بھی تھے، پیش پیش تھے اور محمد عمر مینگل جو ڈگری کالج کوئٹہ کے طالب علم تھے، نمایاں کردار اداکررہے تھے۔

میں اس وقت سپیشل ہائی سکول کوئٹہ جماعت دہم میں زیرتعلیم تھا ہمارا سکول یونٹ ان دنوں انتہائی فعال و متحرک رول ادا کررہا تھا۔ عبدالقیوم شاہوانی ہمارے یونٹ سیکرٹری تھے سکول کے دیگر متحرک طالب علموں میں لعل محمد بنگلزئی‘ سعید احمد قمبرانی‘ ولی محمد لہڑی‘ رحمت اللہ جتک, میرے بھائی عبدالسلام اور قاضی جلال الدین شامل تھے ان دنوں احتجاجی تحریکوں میں ہمارا سکول یونٹ پیش پیش تھا کالجوں میں زیر تعلیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی قیادت پابند سلاسل تھی یا مفرور۔ تنظیم کی ذمہ داری ہم جونئیر ز کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔

اسی دن ہم سکول سے جلوس کی شکل میں نکلے، سائنس کالج سے ہمارا سکول آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا جب احتجاجی طلباء کی ایک بڑی تعداد سائنس کالج کے مین گیٹ سے منسلک جمع ہوگئی تو احتجاجی نعروں کی گونج فضاء میں بلند ہونے لگی۔ طلباء کا مجمع لان سے مین گیٹ کی طرف بڑھنے لگا،کالج گیٹ کے اس پار طلباء سراپا احتجاج تھے اور گیٹ کے اس پار پولیس و سیکورٹی فورس کی نفری کھڑی تھی، نعروں کا سلسلہ جاری تھا کہ فیڈرل سیکورٹی فورس اور پولیس کی بھاری نفری پٹیل روڈ سے منسلک سائنس کالج کے دوسرے گیٹ سے کالج کے اندر داخل ہوئی۔

کالج کے اندر داخل ہوتے ہی فیڈرل سیکورٹی فورس نے مورچے سنبھال لیے اور پولیس کی ڈنڈا بردار نفری نے ہم پر دھاوا بول دیا۔ ہمارا دھیان پیچھے مڑتے ہی مین گیٹ سے پولیس کا دوسرا جھنڈ داخل ہوگیا پولیس اور FSFکا ڈرامائی انداز میں ہمیں دبوچ لینے سے ہمارے مجمع میں افرا تفری پھیل گئی، لاٹھیاں برستی رہیں کچھ آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، کچھ طالب علم موقع پر ہی دبوچ لیے گئے ہمارا مجمع ٹولیوں کی طرح بکھر چکا تھا،طالب علم گرفتاری سے بچنے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اس اچانک دھاوا نے ہمیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔

اس بھگدڑ کے دوران میں بھاگتے بھاگتے سائنس کالج کے ایڈ من بلاک کے پیچھے فٹ بال گراؤنڈ کی دیوار تک پہنچ گیا،پولیس کے چند سپاہی مجھے پکڑنے کے لئے میرا تعاقب کررہے تھے جیسے ہی میں دیوار کوپھلانگنے کی غرض سے دیوار پر چڑھنے لگا تو پیچھے سے پولیس نے مجھے ٹانگوں سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچا اور زمین پر پٹخ دیا،اتنے میں پولیس کے کچھ اور سپاہی بھی پہنچ گئے اور مجھ پر ڈنڈے برساتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ لے کر گیٹ سے باہر پولیس کی بند گاڑی میں سوار کیا، گاڑی میں کچھ دوست پہلے ہی سے موجود تھے اور کچھ دوستوں پر ڈنڈے برساتے ہوئے انہیں گاڑی میں سوار کیا جارہا تھا۔

ان گرفتار شدگان کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے طلباء میں حبیب جالب‘ ولی محمد لہڑی‘ شاہ محمد‘محمد حسن سرپرہ‘ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں میں محمدکریم اچکزئی اور یونس کاسی شامل تھے۔ ہم سب کو گاڑی میں بٹھانے کے بعد گاڑی چل پڑی،ایک دو موڑ کاٹتے ہوئے سٹی پولیس سٹیشن میں جا کر رک گئی، ہمیں گاڑی سے اتارا گیا سٹی پولیس سٹیشن کے حوالات جو پہلے ہی سے مارکر فیکٹری کے احتجاجی مزدوروں سے بھرے ہوئے تھے۔

جہاں ہم سے ایک دو طلباء کو ہم سے علیحدہ کرکے ہمیں پھر گاڑی میں بٹھایا گیا پھر گاڑی سٹارٹ ہوئی ہمیں دو دو تین تین کی تعداد میں مختلف تھانوں پر اتارتی گئی۔آخر میں مجھے ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ کے عقب میں واقع صدر تھانے کے حوالات میں بند کیا گیا۔ صدر تھانے کے میرے ساتھ والے حوالات میں آغا عبدالظاہر احمد زئی جو پہلے ہی سے مقید تھے،کچھ دیر بعد ہمارے ایک رہنما گلزار احمد بادینی اور اسکے ایک عزیز کو بھی صدر تھانے لا کر ہمارے ساتھ حوالات میں بند کیا گیا۔ گلزار احمد بادینی جو موقع پر گرفتار نہیں ہوئے تھے۔

وہ اپنے ایک عزیز کے ساتھ رکشے میں بیٹھے سریاب جاتے ہوئے دھر لیے گئے اور اسے اس کے عزیز کے ساتھ صدر تھانے لا کر میرے ساتھ بند کیا یگا۔آغا عبدالظاہراحمد زئی نے تھانے کے ایک سنتری سے ہمارے لیے چائے منگوائی،ہمارے اور آغا عبدالظاہر کے حوالات الگ تھے جن کے درمیان ایک دیوار حائل تھا، حوالات کی جنگلوں سے ہم آپس میں بات چیت کرتے رہے،مغرب سے قبل ہمارے چا چا سینیٹر عبدالواحد کرد آغا سے ملنے تھانے آئے، انہیں میری گرفتاری کا علم نہیں تھا، آغا نے اس کی توجہ میری طرف دلوائی وہ ہماری طرف آئے ہم سے سلام و دعا کی۔

ہمیں ہمت و حوصلہ سے جیل کے دن گزارنے کی تلقین کی اورجیب سے کچھ رقم نکال کرمجھے تما دی۔ اگلے دن پولیس کی ایک وین آئی آغا عبدالظاہر کو حوالات سے نکال کر جیل جوڈیشنل کیا گیا، ہم مزید کچھ دن حوالات میں بند رہے، ایک دن قیدیوں کی بڑی گاڑی آئی ہمیں حوالات سے نکال کر گاڑی میں سوار کیا گیا،گاڑی میں پہلے سے کچھ گرفتار شدہ ساتھی موجود تھے جن میں بی ایس او کے ولی محمد لہڑی‘ محمد حسین سرپرہ‘ شاہ محمد نوشکی والا دو اور بلوچ طلباء کے علاوہ محمد کریم اچکزئی اور یونس کاسی بھی سوار تھے۔ حبیب جالب کو تھانے سے رہا کیا گیا تھا ہماری گاڑی میں بیٹھتے ہی۔

پولیس گاڑی سٹارٹ ہوئی اور خراٹے بھرتی ہوئی ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ کی سمت چل پڑی۔ ایک دو موڑ کاٹتے ہوئے کچھ دیر بعد گاڑی ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ کے صدر دروازے کے عین سامنے رک گئی۔ہمارے سامنے جیل کی قدآور دیواریں،بلند سیاہ آئنی پھاٹک لیے استادہ تھی ہمیں گاڑی سے اتارتے ہی جیل کے پھاٹک کھول دئیے گئے اور ہمیں ان پھاٹکوں کے اندر واقع ڈیوڑھی میں بٹھایا گیا۔وہاں ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کی گئی پھر ہماری تلاشی لی گئی، اس کام سے فراغت کے بعد ہمیں جیلر کے سامنے پیش کیا گیا، جیلر نے اپنی نگاہیں ہم پر مرکوز رکھتے ہوئے ہمارا سر سری جائزہ لیا پھر سپاہیوں سے کہا کہ انہیں چکر لے چلو۔

ہمیں سپاہی ڈیوڑھی کی اندرونی گیٹ سے نکالتے ہوئے جیل کے دو دیواروں کے مابین سڑک نما راستہ پرلے گیا جس کے کچھ فاصلے پر ایک دائرہ نما علاقہ تھا جس کے وسط میں دو تین کمروں پر مبنی ایک عمارت تعمیر تھی جہاں ایک حوالدار کرسی پر براجمان تھے جس کے آس پاس جیل کے کچھ سپاہی اور کچھ کالی‘ پیلی ٹوپی والے قیدی تھے ہمیں جیل کے سپاہی اس چکر جمعدار کے پاس لے گئے اس چکر جمعدار کا نام بہادر تھا جس کے ساتھ لکڑی کا بنا ہوا ٹکٹکی ایستادہ تھا جسے خوف و دہشت کی علامت کے طورپر رکھا گیا تھا جس سے تشدد وبربریت کا اظہار ہورہا تھا۔

چکر میں قیدیوں اور سپاہیوں کی ریل پیل تھی،اتنے میں علی احمد کرد اور میرے بڑے بھائی اسلم کرد جوپہلے ہی سے یہاں مقید تھے آئے مجھے اور ولی محمد لہڑی کو اپنے ساتھ لے گئے۔ہمارے دوسرے ساتھیوں کو جیل میں موجود دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ رہنے کے لئے لے جایا گیا۔اس احاطہ کا گیٹ مغرب کی طرف تھا، اس احاطہ کی چاروں طرف دیواریں تھیں شمالی دیوار کی پشت پر جیل کا بند وارڈ تھا شمال مشرق کی طرف جیل کی بڑی دیوار کے ساتھ ایک برج بنا ہوا تھا جس پر جیل کا ایک بندوق بردار سنتری ہر وقت موجود رہتا تھا جو جیل سے منسلک دیوار اور احاطوں میں مقید قیدیوں کے حرکات و سکنات کو چیک کرنے پر مامور تھا۔

اس احاطے میں مشرق شمال جنوب کی جانب لائنوں میں کھولیاں بنی ہوئی تھیں اس احاطہ میں ایک چھوٹا سا بیرک بھی تھا ہر کھولی کی لمبائی بارہ فٹ اور چوڑائی دس فٹ تھی، ہر کھولی کے اندر ایک تین Xچھ فٹ کا بنا ہوا ایک تھڑا تھا جسے قیدیوں کی اصطلاح میں ہوٹل کہتے ہیں ہر کھولی کا علیحدہ سلاخوں سے بنا ایک آئنی دروازہ تھا کھولی کے ہر دروازے کے ساتھ والی دیوار کے اندر بنا ہوا کنڈی لگانے کی جگہ تھی جس کے اندر ایک بڑا سا تالا لٹکا ہوا تھا جسے صبح روشنی کے پھیلتے ہی کھولا جاتا تھا اور شام کی سیاہی پھیلنے سے قبل سہ پہر اور مغرب کے درمیان بند کیا جاتاتھا۔

ہر کھولی کے دروازے کے اوپر دیوار کے اندر سلاخوں سے بنا ہوا ایک کھڑ کی تھی، ہر کھولی کے دروازے کے ساتھ باہر برآمد ے میں ایک مٹکا رکھا ہوا تھا جسے قیدی پانی سے بھر کر پینے کے لئے استعمال کرتے تھے اس احاطے میں مغربی سمت باتھ روموں کی ایک لائن تھی ان باتھ روموں میں صبح سویرے گھنٹی لگتے ہی ضروری حاجت کے لئے قیدیوں کی لائن لگ جاتی تھی،ان بیت الخلاء کے دروازے نہ جانے کب کے بنے ہوئے تھے جو ٹوٹے ہوئے اور بغیر کنڈی کے تھے، کنڈی کی جگہ پر رسی یا تار سے دروازے کوہاتھ سے کھینچ کر پکڑا جاتا تھا۔

یا اسی تار کو دیوار میں لگے ہوئے ہک سے بند کیا جاتا تھا۔یہ بیت الخلاء اور باتھ روم قطاروں میں چار پانچ کی تعدادوں میں بنے ہوئے تھے جن کے سامنے چھ فٹ کی ایک دیوار تھی۔یہ بیت الخلاء پیچھے سے کھلے ہوئے ہوتے تھے،ان بیت الخلاء اور باتھ روم کو استعمال کرنے کے لئے راستے ہی میں پانی اور پیشاب سے گیلے فرش سے گزرنا پڑتا تھا جو ایک اذیت سے کم نہیں تھااور نہ ہی بیت الخلاء اور باتھ روموں کے دروازے بند ہوسکتے تھے، قیدی بیت الخلاء کو استعمال کرتے وقت اس کے دروازے کو رسی سے پکڑے ہوئے ہوتے اور آنکھیں دروازے پر لگی ہوتیں۔یہ بیت الخلاء کسی بھی طرح بیت الزحمت سے کم نہیں تھے۔