بلوچستان میں ان دنوں ایک ایشو پر بھرپور مہم جاری ہے اور وہ ہے بلوچستان کے کوٹے پر غیر مقامی افراد کی وفاقی ملازمتوں پر تعینات ہونے کا، گوکہ اس مہم کیلئے بہت سی کوششیں ہوئیں جہاں نوجوانوں نے سوشل میڈیا کامحاذ سنبھالا وہیں سول سوسائٹی نے بھی آواز بلند کی لیکن یہ ایشو دوبارہ کیوں زندہ ہوا؟ جی ہاں سوال یہی ہے یہ ایشو اس لئے زندہ ہوا کہ وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے معاملہ سینیٹ میں ایک بار پھر اٹھنے پر باقاعدہ ٹویٹر کا محاذسنبھالنے سے پہلے وٹس ایپ پر ہدایات دیں اور بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے سب سے پہلے لبیک کہا اور اپنے ضلع مستونگ سے جعلی لوکلز کی نشاندہی کردی جسکے۔
بعد ہمارے وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے ٹویٹر پر آکر عوام کو بتایا کہ جب سینیٹ میں معاملہ اٹھا ہے تو وہ اسے ادھورا نہیں چھوڑینگے اور عملی اقدام اٹھایا جائیگا اور اب روز دیکھتا ہوں ڈپٹی کمشنرز نے مختلف اضلاع سے ان جعلی لوکلز کی چھان بین کا آغاز کردیا ہے حتمی فہرست جتنی بھی ہو جیسی بھی ہولیکن آگے جانے سے پہلے میں ایک بد دیانتی نہیں کرنا چاہتا ابتدائیے کا تاثر ایسا ہے کہ جیسے کہ یہ سب کچھ آج ہوا اور نئی حکومت نے کیا۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہے سینیٹ میں بلوچستان کیلئے مختلف آوازیں گونجتی رہی ہیں لیکن اس معاملے کو سب سے پہلے ایوان بالا میں اٹھانے کا سہرا منگوچر سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر محمد شہی کا ہے۔
آج کوئی کسی تحریر میں یہ نہیں کہتا کہ اس معاملے میں جو بھی کامیابی ملے اسکا سب سے بڑا کریڈٹ میر کبیر محمد شہی کو جاتا ہے۔نو جنوری دو ہزار سترہ کو میر کبیر محمد شہی نے سینیٹ میں ایک قرار داد پاس کروائی جس میں تمام وفاقی محکموں میں موجود ملازمین کے لوکل سرٹیفیکٹس کی چھان بین کا مطالبہ کیا گیا اور پھر کیا تھا معاملہ پھر لال فیتے یعنی بیوروکریسی کے ہاتھ آیا جنہوں نے روڑے اٹکانا تھا لیکن میر کبیر محمد شہی کو کوئی پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو یہ شخص بلوچستان کے قبائلی سماج میں موجود ایک صاف گو آدمی ہے،اگر کسی معاملے کا بیڑہ اٹھا لیا تو پھر اسے پار لگا کر چھوڑتا ہے۔
اسلئے میر کبیر تین سال تک سینیٹ آف پاکستان کو یاد دھانی کرواتے رہے،اخباری بیان جاری کرتے رہے بالآخر اب کچھ پیش رفت ہو چلی ہے اور میر کبیر محمد شہی سے جب میرا رابطہ ہوا تو ان سے ایک سوال پوچھا جسکا جواب حیران کن تھا،وفاق میں کوئی ایک بھی ایسا محکمہ نہیں ہے جس نے ان جعلی بھرتیوں کو ملا کر بھی بلوچستان کو اسکا آئینی حق پورا دیا ہو۔ میں نے پوچھا کیا یہ تحریر میں دیا گیا ہے انہوں نے تصدیق کی جی میرے پاس جوابی خطوط آئے ہیں جن میں کوئی خط ایسا نہیں کہ جو یہ کہے کہ اس نے بلوچستان کو اسکا پورا آئینی اور قانونی حق دیا ہو یعنی بلوچستان کو آئین اور قانون کے تحت تمام وفاقی محکموں میں چھ فیصد حصہ ملنا چاہئے۔
لیکن وہ نہیں دیا جارہا۔ میر کبیر محمد شہی بیچارے کا المیہ یہ ہے کہ انکا تعلق جس جماعت سے ہے اسکا نام ہے نیشنل پارٹی اور اسکی مثال ایسی ہے نیکی کر دریا میں ڈال۔ آج مجھے یاد آتا ہے جب اٹھارویں ترمیم کی جنگ جاری تھی اس میں بلوچستان کے چند افراد کا کردار بہت اہم تھا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو نے جتنا ہو سکا وفاق سے بلوچستان کا حق لینے کی کوشش کی یہاں رضا ربانی اور حاجی لشکری رئیسانی کا ذکر نہ کرنا بھی بد دیا نتی ہوگی،انہوں نے ڈاکٹر مالک اور میر حاصل خان کو بھر پور مدد دی جب اہداف حاصل ہوگئے تو پتہ نہیں کیوں ڈاکٹر مالک وہ کام نہ کرسکے جو سندھ کیلئے مراد علی شاہ کرگئے۔
لیکن جعلی لوکلز کے معاملے پر میر کبیر محمد شہی نے اپنی جماعت کی روایت کو بدلنے کی سعی کی،نہ صرف قرار داد منظور کروائی بلکہ بھرپور فالو اپ بھی جاری رکھا۔لوکل اور ڈومیسائل کے مسئلے کا حل کیا ہے یہ جاننے کیلئے جن افراد سے بات کی انہوں نے تاریخ کے کچھ اوراق الٹ کر دکھائے اور بتایا کہ اس مسئلے کا حل ستر کی دھائی میں نیپ بلوچستان اسمبلی میں اپنی ایک قرار داد میں دے چکی ہے جس میں لوکل اور ڈومیسائل کا فرق ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ نیپ کی اس وقت کی قیادت کا موقف تھا کہ لوکل اور ڈومیسائل رکھنے والے افراد کو ایک جیسے فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔
اور ڈومیسائل چند ماہ قبل آنے والے کو بھی مل جاتا ہے اسلئے ایک ہی دستاویز ہو جو کہ لوکل سرٹیفیکیٹ کہلائے۔اکابرین کو اندازہ تھا کہ یہ لوکل اور ڈومیسائل کی تفریق آگے مسائل پیدا کریگی اور یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعلٰی جام کمال کے داد ا جام غلام قادر اس قرار داد پر عمل بھی کرنے کو تیار تھے تاہم کچھ رکاوٹیں آڑے آگئیں اور پھر دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد اپوزیشن کے دو اراکین مرحوم شفیق احمد خان پیپلزپارٹی اور جان محمد بلیدی نیشنل پارٹی نے جام محمد یوسف کی یاد دھانی اس معاملے پر کروائی مگر جام یوسف صاحب اپنے سینیئر صوبائی وزیر مولانا واسع اور اپوزیشن میں موجود پشتونخواہ میپ کو قائل نہیں کرپا ئے۔ چلیں مجھے ایسا لگتا ہے جن کاموں کی تشنگی بڑے جام صاحبان کے دور کی رہ گئی ہے۔
موجودہ جام صاحب کمال مہارت سے اس تشنگی کو دور کرینگے جیسا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو ضروری قانون سازی ڈاکٹر مالک کے دور میں کرنی تھی اب وہ جام کمال کررہے ہیں۔ اب یہاں ایک اور چھوٹی سی بات بھی اہم ہے جام کمال صاحب کایہ پہلا امتحان ہے اس سے گزرتے ہوئے ذرا صوبائی محکموں میں موجود ملازمین کے کاغذات کی چھان بین بھی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔بحر حال یہ کام سینیٹ نے نہیں جام کمال صاحب آپ نے خود کرنا ہے ورنہ ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ جلد آنے والا ہے۔ یہاں ایک تلخ حقیقت اور بھی ہے اس پر بات نہ کرنا نا انصافی ہوگی ہمارے بلوچستان کے ایک سابق وزیر داخلہ اور موجودہ سینیٹر سرفراز بگٹی ایک روز کہہ رہے تھے پنجابی اچھے مقتول ہیں وہ مرتے بھی ہیں اور کچھ کہتے بھی نہیں۔
یہاں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم بلوچ سرزمین پر خود اپنی قومی شناخت چاہتے ہیں پر کسی اور قوم کیلئے یہ حق ہمیں قبول نہیں ہے ہمیں بلوچستان میں بسنے والی ہر قوم کو اسکی شناخت بھی دینا ہوگی اگر بلوچ اپنی شناخت بلوچ رکھنا چاہتا ہے تو ایسا ہی پشتون اور ہزارہ بھی چاہتے ہیں تو پھر ہم یہاں قیام پاکستان سے قبل آباد پنجابیوں کو انکی شناخت دینے کو کیوں تیار نہیں ہیں، ہم انہیں سیٹلر یا آبادکار کیوں بلاتے ہیں بلوچستان میں موجود تمام اقوام کو اپنی شناخت کیساتھ رہنے کا پورا حق ہونا چاہیے کسی بلوچ یا پشتون کو یہ حق نہیں کہ وہ پنجابیوں کو سیٹلریا آباد کار کہے۔
بلوچستان کی منتخب اسمبلی کو چاہئے کہ ایک قرار داد لاکر اس لفظ کو حزف کیا جائے جسے سیٹلر کہا جاتا ہے یہ حق ان پنجابی بولنے والوں کا ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے نام کیساتھ چوہدری لکھیں یا بٹ وہ بھی اتنے ہی مقامی ہیں جتنے کہ ہم ہیں تو اسکے بعد سب لوکل ہونگے کوئی ڈومیسائل نہیں رہیگا۔اور اب آتے ہیں مسئلے کے حل کی طرف کہ میر کبیر محمد شہی کی قرار داد نیپ کی قرار داد اور ہمارے جام صاحبان کی کوششوں کے نتیجے میں کیا ہوگا کیا ہونا چاہیئے، محتاط اندازے کے مطابق یہ جعلی لوکلز یا ڈومیسائل پر ملازمتیں لینے والوں کی تعداد فور فگرز میں جاسکتی ہے۔
کیا اب ہزار سے اوپر لوگوں کر وفاقی حکومت برطرف کریگی،ایسا ممکن نہیں ہے اسلئے وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کو چاہیئے کہ وفاق میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس بلائیں اور بلوچستان سے ایک مشترکہ موقف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بلوچستان کے اراکین پیش کریں کہ جتنے لوگ غلط کاغذات پر بھرتی ہوئے، وفاق اتنی ملازمتوں کا پیکج بلوچستان کوفی الفور دے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو وفاقی محکموں میں جگہ دی جائے اور اسکا ٹائم فریم کوئی طویل نہ رکھا جائے اگر یہ ممکن ہوتا ہے تو جام کمال کے کمالات میں ایک اور اضافہ ہوجائیگا۔
اور ہاں آخر میں جام صاحب سے ایک اور گزارش ہے کہ ہمارے بلوچستان کے فرزند ارزک خان جو کہ نادرا میں موجود ہیں اور کوئٹہ میں نادرا کے آپریشنز کو ہیڈ کرتے ہیں وہ لوکل کے معاملات کو کمپیوٹرائیز ڈ کرنے کیلئے کوئی پروپوزل حکومت بلوچستان کو بھیج چکے ہیں۔جام صاحب مہربانی فرماکر وٹس ایپ پر ہدایت دیں کہ اس فائل کو تلاش کرکے آپکے نئے فائل ٹریکنگ سسٹم پر ڈالا جائے تاکہ آپ مستقبل میں جعلی لوکل اور ڈومیسائل کے مسئلے کو حل کرسکیں۔