مرد اور عورت وہ اہم ستون ہیں جن پر معاشرہ قائم ہے۔دونوں معاشرے کا لازم و ملزوم حصہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے بغیر یہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ پھل پھول سکتا ہے۔ اس معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے دونوں کا کردار اہم ہے۔جس طرح کسی معاشرے کے افراد کی ترقی کیلئے تعلیم لازمی ہے اسی طرح یہ تعلیم مرد و عورت دونوں کے لئے لازم ہے۔تعلیم جس طرح مرد کے ذہن کے دریچوں کو کھولتی ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھی شعور کی منزلوں کو طے کر سکے۔اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے۔
اور عورتوں کی دینی ودنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیتا ہے جیسا کہ علم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کے باوجود بہت سی جگہوں پر عورت کو اس حق سے محروم کیا گیا ہے جہاں عورت کیلئے نہ تو عزت کا مقام اور نہ جائز حقوق اسے بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔سب سے زیادہ رکاوٹ اس عمل میں یہ ہے کہ عورت علم حاصل کر کے ہم پر حکومت کرنے لگ جائے گی وہ بغاوت اختیار کر لے گی اور ایسا وہاں ہی ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کے منافی نظام ہوں۔ اس لئے اس میں تعلیم کا قصور نہیں اس فرسودہ نظام کا عمل دخل ہے۔
جس نے صحیح غلط کے فرق کو ختم کر دیا ہے۔تعلیم تو ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور اسے روشنی عطا کرتی ہے تاکہ وہ درست سمت کا تعین کر سکے۔کوئی معاشرہ تعلیم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ترقی کی منزلوں کو چھو سکتا ہے۔بقول نپولین بونا پارٹ:- ”بہترین قومیں بہترین مائیں ہی بنا سکتی ہیں“ تعلیم نسواں سے کسی ملک میں معاشی واقتصادی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی قوم کی ترقی وخوشحالی کا انحصار عورت و مرد کی تعلیم پر ہے۔ عورتوں کی بنیادی تعلیم کا مقصد انہیں علم سے آگاہ ہی اور ان کی اچھی صلاحیتوں کو اْجاگرکرنا ہے،ان کے ذہن کے بند دریچوں کو کھولنا ہے۔جس معاشرے میں عورتیں تعلیم یافتہ ہوتی وہ معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
اس ضمن میں جو سوال قابل غور ہے وہ ہے کہ عورت کی تعلیم کیوں ضروری ہے۔لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکیوں کو تعلیم کیوں دلوائیں اور اس پر اتنا خرچا کیوں کریں جب اس نے آگے جا کر چولہا چوکی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ عورت گھر نہ سنبھالے بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں اسے تعلیم ملے تاکہ وہ گھر کے ساتھ ساتھ نسلوں کو بھی اچھے سے سنبھالے۔عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے جو اپنی گود میں نسلوں کو پروان چڑھاتی ہے۔اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکیں جب وہ خود کسی قابل نہ ہو تو وہاں نئی نسل کیا کرے اور کسے ترقی کرے۔
سب سے بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک کامیاب مرد کے پیچھے اس کی ماں کی بیشمار تربیت ہوتی ہے جو وہ بچپن سے دیتی ہے۔ عادل ماں کا بیٹا عموماً عادل ہی ہوتا ہے کیونکہ عدل اسکی گھٹی میں ہوتا ہے اگر وہ بہک بھی جائے تو اس کی تربیت اس کی راہنمائی کرتی ہے۔اسی طرح تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی پرورش ان پڑھ ماں سے بہتر انداز میں کر سکتی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ڈھال بن سکتی ہے۔جب کہ ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد قرآن کی بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے، یہاں سائنسی اور تحقیقی تعلیم کی بات چھوڑ ہی دیں۔
تعلیم چاہے دینی ہو یا دنیوی وہ بند دریچوں کو کھولتی ہے۔اس میں عورتوں اور بچیوں کے لئے سکولوں میں پرائمری تعلیم اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ، ووکیشنل اور پیش ورانہ تعلیم شامل ہے۔ مگر ہمارے سوراب کے گرلز اسٹوڈنٹس کالج سے محروم ہیں، اربوں روپے سے تعمیر ہونے والے گرلز اور بوائز کالجز کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں، سوراب کو ضلع بنے کافی عرصہ ہو رہا ہے مگرگرلز کالج بحالی کی اور بوائز کالج سہولیات کے منتظر ہیں، یہاں کالجزمیں جانوروں اور منشیات کے عادی لوگوں نے ڈھیرا ڈھال رکھاہے۔
ابھی تو سوراب کے کالجز کو ڈگری کا درجہ بھی مل گیا،کیا اب ڈگری کے کلاسز بھی انہیں دو کلاس رومز میں جاری رہیں گی، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو سوراب کا شمار ان اضلاع میں ہوگاجہاں لڑکیوں کی تعلیم صفر ہے۔حکومت وقت سے میرا اپیل ہے کہ وہ پورے بلوچستان بالخصوص سوراب کے اوپر تعلیمی حوالہ سے خصوصی توجہ دے تاکہ ہمارے علاقہ کی لڑکیوں کا شمار تعلیم یافتہ طبقہ میں ہو،کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہے اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے، اپنے لئے ذریعہ معاش پیدا کرسکتی ہے، اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے۔
غربت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہے کسی بھی قسم کے حالات کو چیلنج کرسکتی ہے اس کے برعکس اگر وہ تعلیم یافتہ نہ ہو تو بے بسی اسے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ تعلیم عورت کو خوداعتمادی عطا کرتی ہے اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔اس میں خود شناسی کی لہر پیدا کرتی ہے جس سے وہ معاشرے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھتی ہے۔ تعلیم عورت کو حقوق و فرائض کی پہچان سکھاتی ہے اور انہیں احسن طریقے سے پورا کرنا کا ہنر عطا کرتی ہے۔
انیسوی صدی کے شروع تک، عورتیں اور بچیاں صرف گھر یلو رسمی تعلیم تک محدود تھیں مگر اب معاشرہ گواہ ہے کہ آج والدین اپنی بچیوں کو بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حصول تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں اور یہی بچیاں کل کو میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس، تجارت، بنکاری اور صحافت نیز ہر شعبہ میں اپنے کمال دکھاتی اور ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں کہا تھا کہ میں اپنی قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، ایک اعلٰی فہم بزرگ نے کہا کہ اپنی قوم کی نانی دادی ماں بہن بیٹی کے لئے تعلیم عام کر دو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج مشکل سے ہی کہیں کوئی سکھ بیکار ملتاہے۔
مرد کی تعلیم تو صرف مرد کو فائدہ دیتی ہے مگر عورت کی تعلیم اسکے ساتھ ساتھ اسکی نسلوں تک کو سنوار دیتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں رہیں اور اس زمرے میں الیکشن میں ان کاانتخاب کریں جو تعلیم کو اہمیت دیں اور اسکی بہتری کیلئے کوششیں کریں۔