سال امسالین کتب بینی کے لحاظ سے اشتیاقیہ رہا ہے۔جب دنیا کورونا کے باعث گھروں تک محدود تھی، اب تو سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے،اب ہم بھی گھروں تک اتنے محدود نہیں رہے، ابتدائی دنوں سے مجھ سمیت میرے چند ہمسروں نے جو کتب بینی کا اشتیاق رکھتے ہیں اپنے اپنے آشیانوں میں محصور مطالعہ کتب سے محظوظ ہوتے رہے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا اگر میں اپنے لیے سال حال کو کتب بینی کا سال کہوں۔گھر میں مقید رہنے کا تجربہ مجھ سمیت چند کتابوں کے اشتیاقیوں کا مفید رہا ہے البتہ چند عوامل نے پر یشان بھی کر رکھا جس میں کورونا کی وبا تو سر فہرست ہے۔اچھی خبر سننے کو یہ ملتی ہے کہ کورونا کا عتاب کم ہوا ہے اور کیسسز میں کمی آرہی ہے۔
دعا ہے کہ جلد اس عفریت سے نجات ملے اور زندگی اپنے معمول پر آجائے۔
بات ہو رہی تھی امسال کتب بینی کا تجربہ کیسا رہا ہے؟یوں سمجھ لیجیے اس سال میں نے تحاریر کے مختلف flavors کوچکھا ہے۔یعنی مختلف النوع کتب پڑھنے کا تجربہ رہا۔جن میں چند ایک کتابوں کا ذکر اس تحریر میں کیا جاتا ہے۔بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ یووال نوح ہراری کی مایہ ناز کتاب ہے جو انسانی ارتقا کے ساتھ ساتھ قوموں کے عروج وزوال کے معاملات اور تعصب اور تنگ نظری کے نقصانات کا تذکرہ کرتی ہے اس کتاب میں ہراری کا وسیع مطالعہ ظاہر ہوتا ہے۔کتاب کو بہت شعوری کوشش سے غیر متعصبانہ رکھا گیا ہے۔یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ ہے۔
اس کے بعد ول ڈیورانٹ کی ایک مختصر تصنیف ”انسانی تہذیب کا ارتقا ایک شاندار کتاب ہے جو انسانی ثقافت سماجی حالات اور تہذیبی عوامل پر بحث کرتی ہے مطالعہ حصہ رہی ہے۔ wife upstairs The رافیعہ ذکریہ کی خوبصورت تخلیق ہے یہ کہانی ایک خاندان کی زندگی اور ایک قوم کی زندگی کے مابین گھومتی ہے اور پاکستانی سماج اور خاندانی معاملات کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ تنہائی کے سو سال گیبریل گارشیا ماکیز کا نوبل انعام یافتہ ہے ایک بہترین تصنیف ہے بس اتنا کہوں گا گارشیا کو پڑھ کر ہمیشہ ایسے لگتا ہے جیسے سب کچھ قاری نے تو خود لکھنا تھا۔
اگر سیاسی تاریخ کی بات کی جائے تو عائشہ جلال کی کی دو کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں ایک ہے
spokesman sole The جس میں عائشہ جلال نے بانی پاکستان کی سیاسی بصیرت کو خوبصورت انداز میں پرویا ہے اور دوسری کتاب
Asia south in Authoritarianism and Democracy بھی پڑھنے کے قابل ہے۔
اسد سلیم شیخ صاحب کی ہماری دستوری تاریخ بھی صف اول کی کتاب ہے جس میں مصنف نے 1600 سے 2018 تک دستور سازی کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔ مطالعہ کا حصہ رہی۔
اب اس کتاب کا ذکر کرنا چاہوں گا جو میرے لیے year the of Book رہی۔”سب رنگ کہانیاں“ شکیل عادل زادہ کا نگارخانہ۔
سب رنگ کی ابتدا 1970 کے راج میں ہوئی،سب رنگ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا اس میں کہانیوں سمیت عوامی دلچسپی کے دیگر رنگا رنگ موضوعات پر مضامین اور فیچر شامل تھے۔رفتہ رفتہ سب رنگ میں ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دنیا کا بہترین فکشن اپنے قارئین کے لیے پیش کیا جانے لگا۔سب رنگ میں عالمی اور اردو ادب سے چنیدہ فکشن پیش کیا جانے لگا۔شکیل عادل زادہ نے اپنے قاری سے بہترین کہانیاں پیش کرنے کا عہد کر رکھا تھا شکیل عادل زادہ کہتے تھے کہ اچھا مواد ملے گا تو پرچہ چھپے گا ورنہ نہیں،کمزور تحریریں چھاپنے سے بہتر ہے کہ پرچہ ہی نہ آئے۔
شکیل عادل زادہ عالمی ادب اور اردو کی بہترین کہانیاں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے اور اردو ادب کو نچوڑ کر اس کا عطر پیش کرتے رہے پھر ایسا وقت بھی آیا کہ بڑے ادیبوں کی تحاریریں بھی سب رنگ میں جگہ بنا نہیں پاتیں۔آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کیسی چنیدہ تحریریں اس میں شائع ہوتی تھیں۔اس وقت سب رنگ کا پہلا حصہ کتابی شکل میں شائع ہو چکا تھا اور معقول قیمت میں دستیاب ہے جو سمندر پار سے شاہ کار افسانوں کے تراجم کا مجموعہ ہے۔
سب رنگ کا دور واپس لوٹ آیا ہے۔
بس اتنا کہوں گا،سب رنگ پڑھنا مت بھولیے گا۔