بیت الخلاء و غسل خانہ استعمال کے لئے باہر پانی کا ایک نل لگا ہوا تھاجس کے ساتھ چند لوٹے اور چند گھی کے خالی بڑے کنستر جن سے قیدی بیت الخلاء اور غسل خانہ استعمال کرنے کے لئے پانی لے جاتے،کھولیوں میں پیشاب کے لئے ایک ٹین دیا جاتا جس میں بغرض ضرورت قیدی پیشاب کرتے اور صبح اپنے ہی پیشاب کو بیت الخلاء کی نالیوں میں بہاتے ،پیٹ خراب ہونے کی صورت میں بھی مجبوری کے تحت یہی ٹین استعمال کیا جاتا، ہاں بیرکوں میں بیت الخلاء بنے ہوئے ہوتے لیکن ان کا درازہ آدھا ہوتا تاکہ نمبر دار بیت الخلاء استعمال کرنے والے قیدی کو چیک کرسکے۔
یہ دروازہ آدھا اس لیے ہوتا تاکہ قیدی بیت الخلاء کی کھڑکی نما دیوار میں چپکے سے نقب نہ لگاسکے۔ ہمارے ہاں جیل میں آنے سے قبل بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اراکین اور دیگر طالب علم رہنماء جیل کے مختلف احاطوں میں رہتے تھے، کچھ دن میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہا،دوستوں کی زیادہ تعداد میں مقید ہونے کی وجہ سے مختلف جگہوں میں مقید سیاسی قیدیوں کو جیل کے ایک احاطہ 10,9نمبر کے تنہاہیوں میں شفٹ کیا گیا۔یہ احاطہ کچھ قیدیوں کے احاطے کے نام سے مشہور تھے اس احاطہ میں دو کال کوٹھڑیوں (تنہائیوں) کی لائنیں اور ایک بارک تھی۔
علی احمد کرد‘امان اللہ بازئی اور امان اللہ شادیزئی ایک تنہائی میں شفٹ ہوئے، دوسرے تنہائی میں اسلم کرد‘ عبدالقیوم ساسولی اور خورشید بلوچ (جمالدینی) اسی طرح بالترتیب وہاب شاہ دلسوز‘ عطاء اللہ بلوچ بزنجو‘ یعقوب‘ ملک عبدالرسول لہڑی‘عبدالرحمن لانگو‘ اکبر اچکزئی‘ کریم اچکزئی‘ یونس کاسی‘ سرفراز بنگلزئی‘ دوست محمد بنگلزئی‘ غرض کہ تمام مقید سیاسی و مارکر فیکٹری کے مزدور ورکر زتین تین کی تعداد میں مختلف تنہایوں میں گھسیڑ دئیے گئے ۔ میں اور ولی محمد لہڑی جو ابھی تک گالوں پر بال اگنے سے بے نیا ز تھے،نئے نئے سن بلوغت کو پہنچنے اور جوانی میں قدم رکھنے کے لئے پرتول رہے تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی کے سالار آغا مجید شاہ کے ساتھ ایک تنہائی میں شفٹ ہوئے، ہمارے ساتھ اسی تنہائی میں ما ر کر فیکٹری کے مزدور ورکر عبدالرحمن رند‘ بی ایس او پولی ٹیکنیک یونٹ کے ساتھی قاسم بلوچ (پندرانی) انہی دنوں جیل میں آئے ہوئے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی سکندر کرد جسے اسمبلی اجلاس کے دوران سیاہ جھنڈی ہاتھ میں لیے اسمبلی گیٹ پر نعرے لگاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، اسے بھی ہماری تنہائی میں شفٹ کیا گیا۔ علی احمد کرد اور میرے بڑے بھائی اسلم کرد جیل کے ہسپتال وارڈ میں مقید تھے جہاں ان کے ساتھ امان اللہ شادیزئی‘ عطاء اللہ بزنجو اور امان اللہ بازئی بھی تھے۔
ان دنوں انکے علاوہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزشن پشن بلوچستان کے قائم مقام صدر عبدالقیوم ساسولی‘ خورشید احمد جمالدینی‘ یعقوب پیل‘ قاسم بلوچ (صوفی عبدالخالق)نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں میں سینیٹر میر محمد عزیز کرد’آغاوہاب شاہ دلسوز‘نیپ بلوچستان کے سالار آغا مجید شاہ‘ ملک عبدالرسول لہڑی‘ عبدالرحمنٰ لانگو‘ نصیر اچکزئی‘ مارکر فیکٹری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں میں سرفراز احمد بنگلزئی‘ دوست محمد بنگلزئی‘ عبدالرحمن رند‘ عبدالسلام‘ غلام حیدر‘ محمد اعظم‘ گل محمد کاسی اور چند دوسرے مزدور پابند سلاسل تھے۔ ان کے علاوہ معروف اسلحہ ڈیلر غلام محم ڈوسل،لونگ خان مینگل اور علی محمد مینگل کے ساتھ پیش آئے۔
واقعات کے دوران گرفتار ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل میں زندان کے شب و روز گزار رہے تھے۔ سینیٹر میر محمود عزیز‘ سینیٹر زمرد حسین اور نوابزدہ شیر علی خان اور محمدڈوسل Aکلا س کے قیدی تھے، اس چھوٹے سے بنگلہ نما بیرک کو وائٹ ہاؤس کہا جاتا تھا جو جیل کے چکر میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب دوسرا احاطہ تھا۔ وائٹ ہاؤس جیل کے دوسرے بیرکوں سے مختلف تھا جو مکمل طورپر سفیدتھا ایک بیڈ روم ایک ڈرائنگ روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم پر مشتمل تھا کمروں کے دروازے لوہے کی بجائے لکڑی کے تھے سلاخوں کی بجائے جالی پر مشتمل تھے۔
وائٹ ہاؤس نما یہ بنگلہ 1961ء کی شروعات میں اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہر وردی کو پاک آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تعیناتی اور مولانا عبدالمجید بھاشانی کی گرفتاری سے انکار پر 18اکتوبر1957کو استعفیٰ پر مجبور کیا گیا۔