|

وقتِ اشاعت :   July 16 – 2020

وزیراعلیٰ جام کمال خان کی جانب سے یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹس بنانے کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ٹھان لی ہے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ جعلی ڈومیسائل پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے تمام معاملات پر نظر ہے صوبے میں جہاں بھی کمزوری اور کوتاہی برتی گئی وہاں نہ صرف افسران کو معطل کیا گیا بلکہ تحقیقات ہورہی ہیں جوصوبے نے ماضی میں بھگتا ہے اگر اب بھی ہم نے خاموش رہتے ہوئے کوئی ایکشن نہ لیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا وزیراعلیٰ کے بقول وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم‘ اینٹی کرپشن اور دیگر محکموں کو فعال کردیا گیا ہے اب تک صوبے میں درجنوں افسروں کو ناقص کارکردگی کی بناء پر معطل کیا جاچکا ہے۔ یہاں ہم یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی سندھ میں بڑے پیمانے پر جعلی ڈومیسائل بنانے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے 68افسران کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔

ان میں سے 13زائد ڈپٹی کمشنر صاحبان شامل ہیں انہوں نے ایک کمیٹی قائم کر کے ان افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی صفائی کمیٹی کو پیش کریں یہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹسسندھ کے بڑے شہروں حیدر آباد‘ لاڑ کانہ‘ سکھر‘ جیکب آباد سمیت دیگر بڑے ضلعی ہیڈ کوارٹرز سے بنائے گئے ہیں وزیراعلیٰ جام کمال خان سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ بلوچستان سے جعلی ڈومیسائل و لوکل سرٹیفکیٹس بنانے والے افسران کو بھی قانون کے شکنجے میں لاتے ہوئے مقام عبرت بنائیں گے تاکہ مستقبل میں ایسے جعلی سرٹیفکیٹس بنانے کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو سکے جن افراد نے وفاق میں ملازمتیں حاصل کی ہیں ان محکموں کو لیٹر جاری کرکے انکے خلاف تادیبی کارروائی کی بھی سفارش کریں گے۔

وزیراعلیٰ جام کمال سے مثبت اقدامات کی توقع کی جارہی ہے۔ اللہ کرے کے ایسا ہی ہو۔ ڈپٹی کمشنر مستونگ محبوب خان اچکزئی نے پہلی بار 400سے زائد جعل ڈومیسائل سرٹیفکیٹس منسوخ کرکے اپنی حب الوطنی کا بھر پور مظاہرہ کیا اس کے بعد کیا ہوا کہ سوشل میڈیا پر چاروں اطراف سے ایک شور اٹھا ہر ضلع سے جعلی ڈومیسائل لے کر بلوچستان کے کوٹہ پر وفاقی اور صوبائی محکموں ’محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی‘ لوکل گورنمنٹ‘قومی اسمبلی‘ سینٹ‘ ایف آئی اے‘ نیب‘ نادرا بلوچ سمیت دیگر محکموں میں تعینات سندھ‘ پنجاب اور خیبر پختونخواء کے ان ملازمین کے جعلی ڈومیسائل اور تقاریر تواتر کے ساتھ سامنے آرہی ہیں جن میں ان علاقوں کے نوجوانوں کا جائزمطالبہ سامنے آرہا ہے کہ ان تمام جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کو نہ صرف منسوخ کیاجائے۔

بلکہ ان علاقوں سے جاری کرنے والے آفیسران جن میں ڈپٹی کمشنر صاحبان اور ان کے دفاترکا عملہ براہ راست ملوث رہا ہے ان کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کی جائے بات صرف یہ نہیں ہونی چائیے کہ جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹسکی منسوخی تک معاملے کو بہتر سلجھاجائے بلکہ ان غیر بلوچستانیوں کا وفاقی محکموں میں بھی پیچھا کیاجائے۔ جو ان محکموں میں عرصہ دراز سے تنخواہیں لے رہے ہیں یہاں ہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا ذکر کریں گے جنہوں نے سندھ سے جاری کرنے والے درجنوں ڈپٹی کمشنرکے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کمیٹی تشکیل دی ہے جو آفیسران اس کمیٹی میں اپنی صفائی کا موقع حاصل کر سکتے ہیں اس کے بعد ان کے خلاف کارروائی بڑے پیمانے پر میں ہو سکتی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی صاحب سے بھی پہلی توقعات ہیں کہ جس طرح انہوں نے بھی اس بڑے پیمانے پر”ڈکیتی اور چوری ”کا نوٹس لیا ہے اسے اپنے انجام تک پہنچاتے ہوئے اس میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کے ساتھ ساتھ ان وفاقی محکموں کے سربراہان کو بھی ان جعلی ڈومیسائل کے بارے میں آگاہ کریں گے بلکہ ان سے رپورٹ بھی طلب کریں کہ انہوں نے اپنے اپنے محکموں میں جعلی تعیناتیوں کے خلاف ثبوت پیش کرنے کے بعد کیا کارروائی کی ہے کیونکہ صرف سرٹیفکیٹس کی ضلعی دفاتر تک منسوخی سے معاملات درست نہیں ہوں گے وہ تو اپنے اپنے محکموں میں نوکریاں کررہے ہوں گی۔ بہتر طریقہ بھی یہی ہے کہ ان کا پیچھا کیاجائے تاکہ مستقبل میں کسی غیر بلوچستانی کو دو بارہ ایسی جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹس بنانے کی جرات نہ ہو۔

گزشتہ دنوں سینٹ اجلاس میں بی این پی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اپنی تقریر میں اس صورت حال پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی محکموں میں لگ بھگ29ہزار غیر بلوچستانی بلوچستان کے ملازمتوں کے کوٹہ پر ملازمتیں کررہے ہیں انہوں نے امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف وفاقی حکومت بلوچستان کو اس کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بجٹ نہیں دے رہی ہے اب کے بار تحریک انصاف حکومت نے محض دس ارب بلوچستان کے لئے اور 52ارب آزاد کشمیر کی حکومتوں کے لئے مختص کیا ہے۔ جو بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ بلوچستان کے منافع بخش وسائل پر کنٹرول بھی وفاق کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا تو وسائل کی تقسیم رقبے کی بنیاد پر ہوتی تھی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو اس فارمولے کو تبدیل کرکے اس تقسیم کو آبادی کی بنیاد پر کیا گیا تاکہ پنجاب کو فائدہ حاصل ہو انہوں نے کہا کہ ان نا انصافیوں سے چھوٹے صوبوں کے نوجوانوں میں نفرت پیدا ہورہی ہے جو لازمی امر ہے آج اکیسویں صدی ہے ا س میں اس طرح کی چالبازیاں نظر انداز نہیں ہو سکتیں وفاقی کو چائیے کہ وہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرے ورنہ بلوچستان جو پہلے سے آتش فشاں بن چکا ہے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایک خبر کے مطابق کوہلو کے لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹس پر وفاقی محکموں میں لگ بھگ 173غیر بلوچستانی گریڈ 5سے لے کر 15تک غیر قانونی بھرتی کئے جاچکے ہیں۔

ان افراد کا تعلق اٹک‘ ڈیرہ غازی خان‘ ملتان‘ جیکب آباد‘ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے بتایا جاتا ہے یہ افراد گزشتہ پندرہ سالوں سے ملازمتوں پر بلوچستان کے کوٹہ پر بھرتی ہو کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ یہاں پر یہ بات سامنے آنی چائیے کہ اندرون بلوچستان جتنے بھی جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس بنائے گئے ہیں ان میں ان ڈی ایم جی ڈپٹی کمشنر صاحبان کا ہاتھ ہے جنہوں نے بلوچستان میں اپنی اپنی تعیناتی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اپنے عزیز و اقارب کو بڑی تعداد میں جعلی ڈومیسائل دے کر صوبے کے ساتھ غداری کی ایسے افسران کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے صوبے کے ساتھ دھوکہ دہی کا ریڈ سیاہی سے اندراج کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی غیر بلوچستانی آئندہ اس طرح کے جعلی ڈومیسائل کی اپنے اپنے رشتہ داروں سے بندر بانٹ نہ کر سکے۔

یہاں پر میں سینیٹر کبیر محمد شہی کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے بلوچستان کے حقوق پر صوبے کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے سینئرہونے کا حق ادا کیا ہے جعلی ڈومیسائل کا معاملہ بھی انہوں نے سینٹ میں اٹھایا تھا۔ جس پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے رولنگ دی کہ وفاق میں بلوچستان کے کوٹہ پر اب تک ملازمتیں حاصل کرنے والے 22ہزار سات سو چھیاسٹھ افراد کے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹس کی چھان بین کرائی جائے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مستونگ کے جعلی لوکل و ڈومیسائل پر وفاقی محکموں میں سات سو چوالیس افراد ملازمت حاصل کر چکے ہیں جن میں ڈپٹی کمشنر مستونگ محبوب اچکزئی نے کارروائی کرتے ہوئے لگ بھگ چار سو سے زائد لوکل سرٹیفکیٹس منسوخ کردئیے۔

یہ بات صرف تین صوبوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے نوجوانوں نے بھی بلوچستان کے سرحدی شہروں چمن‘ پشین‘چاغی‘ لورالائی سے لوکل سرٹیفکیٹس حاصل کرکے سرکاری محکموں میں ملازمتیں حاصل کی ہیں بعض افراد تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ اگر حقائق پر سے پردہ ہٹایاجائے اور پسند و ناپسند کو بالا طاق رکھ دیاجائے تو جعلی لوکل سرٹیفکیٹس سے بلوچستان صوبائی اسمبلی‘ سینٹ اور قومی اسمبلی تک محفوظ نہیں رہا ہے چند ایک ایم پی ایز یا سینیٹر صاحبان یا رکن قومی اسمبلی کے بارے میں عوام الناس میں یہ بات شدو مد کے ساتھ کی جاتی ہے کہ یہ افراد بنیادی طورپر افغانستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ بلوچستان سے جعلی لوکل سرٹیفکیٹسمختلف اوار میں لے کر چند ایک سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بن کر اسمبلیوں تک بھی جا پہنچے۔

کیونکہ انہیں ان پارٹیوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی ایک رکن صوبائی اسمبلی کی نشست بھی اس وجہ سے برخاست کی گئی جسے بلوچستان ہائی کورٹ نے افغان شہری تسلیم کرکے اس کی رکنیت منسوخ کردی یہ صرف ایک اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والا شخص تھا۔ اگر ہمارے ادارے مخلص اورایمانداری کا مظاہرہ کریں تو اب بھی کئی ایک افراد جو کہ اسمبلیوں میں موجود ہیں غیر ملکی ثابت ہوں گے چہ جائیکہ کہ وہ 1960ء میں چمن یا چاغی آیا تھا اورانہوں نے یہاں آکر مستقل سکونت حاصل کی یہ لطیفے صرف اور صرف ہمارے ملک”خدائیداد پاکستان“ میں سننے کو ملتے ہیں وگرنہ آپ کو خود افغانستان سمیت ایران‘ ملیشیا‘ خلیجی ممالک سمیت سعودی عرب میں ورک پرمٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا مقامی عرب کفیل کے نام پر آپ کاروبار میں اسکی شراکت کے فارمولے پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔

ورنہ آپ غیر ملکی شہری تصور کئے جا تے ہیں جبکہ ہمارا ملک”خدائیداد پاکستان“ اور پھر خدائیدادبلوچستان“ کی شان ہی نرالی‘ یہاں بنگلہ دیش‘ افغانستان اور حتیٰ کہ برما سے آنے والا شخص چند دنوں میں مقامی ہو کر قومی شناختی کارڈ سمیت پاسپورٹ لے کر فریضہ حج بھی ادا کر سکتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں چند سال پہلے ٹی وی پر یہ باتیں بھی نشر ہوئیں کہ فوج میں بھی افغان نوجوان بھرتی ہوئے چند ایک کی چان بین کرکے انہیں فوج سے برخاست کرنے کی باتین کوئٹہ کے ہر نوجوان کو علم ہے‘بہر حال وزیراعلیٰ اور ہمارے وزراء اگر ایمانداری اور بلوچستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے سخت اقدامات کی ٹھان لیں۔ تو یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہوسکتا ہے۔