گزشتہ ہفتے امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز سے الحاق شدہ سائنسی جریدے میں ایک تحقیق شائع ہوئی اور ایک ہی روز میں اس پر ریوٹرز سے لے کر نیو یارک ٹائمز تک نے مضامین اور آرٹیکلز شائع کر ڈالے اور اس عمل کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے تحقیق سوائن فلو اور انفلوئنزا فلو کا سبب بننے والے وائرس ایچ ون این ون (H 1 N 1) سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ انفلوئنزا فلو سے سال 2019 میں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئی تھیں مگر نئی شائع شدہ تحقیق کے مطابق کورونا جیسی ایک نئی وبا چین میں پھیلنے کا خطرہ ہے اور گزشتہ سالوں کے جو اعداد و شمار تحقیق اور اس سے متعلق شائع ہونے والے مضامین میں شا مل کیے گئے۔
ان میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے چین ایک نئی عالمی وبا کا سبب بننے والا ہے۔کیونکہ اس نئے (G 4 EAH 1 N 1) وائرس کے زیادہ تر شکار وہ لوگ ہوئے ہیں جو چین میں خنزیر کے فارمز پر کام کرتے رہے ہیں۔ تحقیق میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس سے متاثرہ افراد میں نہ تو کسی کی ہلاکت ہوئی ہے اور نہ ہی پیچیدہ کیسز سامنے آئے ہیں مگر چونکہ ایچ ون آئی ون وائرس خنزیر سے انسانوں میں منتقل ہونے اور عالمی وباء کی طرح پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اسے فوری طور پر کنٹرول کر نے کی ضرورت ہے۔
مگر عالمی میڈیا میں اس تحقیق کو جس طرح بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز نے اس پر مضامین لکھے کہ ان میں کورونا وائرس کے بعد اسے دوسری نئی وبا کے طور پر پیش کیا گیا۔ابھی خنزیر سے پھیلنے والے اس وائرس پر چین کے خلاف عالمی میڈیا کی انفارمیشن وار تھمی بھی نہیں تھی کہ چند دنوں کے وقفے کے بعد چین کے شمالی صوبے منگولیا سے بابونک پلاگ سے متاثرہ ایک شخص کی خبر عالمی خبروں کا مر کز بن گئی۔ واضح رہے کہ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں بابونک پلاگ (طاعون کی ایک خطر ناک قسم) سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
وبا سے ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ سڑکوں پر لاشوں کے ڈھیر پڑے رہتے تھے مگر انھیں کفنا نے دفنانے والا کوئی نہیں تھا اسی وجہ سے اسے بلیک ڈیتھ بھی کہا جاتا ہے۔مگر ٹیکنالوجی خصوصاً میڈیکل سائنسز میں ہزار ہا سنگ میل عبور کر لینے کے بعد آج کا انسان اس قابل ہے کہ اپنے اس دیرینہ دشمن کو پچھاڑ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ منگولیا میں بابونک پلاگ کا ایک مریض سامنے آتے ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایکشن میں آئی اور فوراً بیان جاری کیا کہ صورتحال کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے اور جس ایک مریض کی نشاند ہی ہوئی تھی وہ زیر علاج ہے۔
اور ساتھ ہی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ آج کے دور میں طاعون ہر گز ایسا مرض نہیں ہے جس کا علاج ممکن نہ ہو اور یہ تیزی سے وبا کی صورت اختیار کرلے۔عالمی میڈیا میں چین میں پھیلنے والے ہر وائرس یا بیماری کو جس طرح فوراً اور بڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یا تو میڈیا نے موجوہ کورونا وائرس کی صورتحال سے کچھ بھی نہیں سیکھا یا پھر سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اس طرح کی خبریں وائرل کی جا رہی ہیں۔عالمی میڈیا چھ ماہ سے ایک وبا کی مسلسل رپورٹنگ کر نے کے باوجود ابھی تک سیاسی اور سائنسی خبروں میں تفریق کرنے سے قاصر ہے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کسی دوا کو کورونا کے موثر علاج کے طور پر پیش کرتے ہیں تو میڈیا سائنسدانوں، محققین اور میڈیکل ایکسپرٹس کی رائے لئے بغیر فوراً اس سے متعلق خبر لگا دیتا ہے یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ لوگ اس وقت وباء کی وجہ سے شدید ذہنی اور اعصابی دباؤ کا شکار ہیں اور جو لوگ کورونا وائرس کے باعث قرنطینہ یا آئسو لیشن میں ہیں انھیں جو بھی دوا بتائی جائے وہ اندھا دھند اعتبار کر کے اسے ڈاکٹرز کی رائے لئے بغیر استعمال کر لیتے ہیں جس کے مہلک نتائج دنیا دیکھ چکی ہے۔ اس کے باوجود میڈیا کورونا وائرس کی ویکسین سے متعلق آئے روز نئے شوشے چھوڑ تا رہتا ہے۔
یہ جانے بغیر کہ وائرس کا مورٹیلٹی ریٹ زیادہ ہے اور یہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سائنسدانوں کو ویکسین تیار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور ابھی تک چند میڈیسن ہی اس کے علاج کے لئے منظور کی گئی ہیں پاکستانی میڈیا ہو یا عالمی میڈیا سیاست کی خبروں پر ہر بندہ ایکسپرٹ بنا تجزئیے کر تا نظر آتا ہے اور نیوز چینلزز پر بھانت بھانت کے لوگوں کے تبصروں نے سنجیدہ افراد کا بہت سے چینلز اور صحافیوں پر سے اعتبار ہی ختم کر دیا ہے۔ مگر کورونا وائرس کے عالمی وبا کی صورت اختیار کرتے ہی یہ چلن صحت اور سائنس کی خبروں سے متعلق بھی شروع ہو گیا اور پاکستان میں تو کئی دفعہ صورتحال کافی مضحکہ خیز بھی ہو چکی ہے۔
کیونکہ ہمارے سیاستدان اور وزراء کی سائنسی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایسا ہی کچھ چلن عالمی میڈیا کا بھی ہے اور کورونا وائرس یا کسی اور وائرس یا بیماری سے متعلق خبر کو بنا تصدیق کیے فوراً بریکنگ نیوز کے طور پر شائع یا براڈ کاسٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ عام افراد وبا کی وجہ سے پہلے ہی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ لاکھوں افراد اب تک بے روزگار ہو چکے ہیں اور کروڑوں اس خوف کا شکار ہیں کہ بڑھتے ہوئے عالمی معاشی اور معاشرتی مسائل کے باعث کس وقت انھیں بھی روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
میڈیا نہیں جانتا کہ اگر ایک شخص دن بھر کا تھکا ہارا گھر آ تا ہے اور ملازمت یا مالی مسائل کی وجہ پہلے ہی دباوء کا شکار ہے اس پر بنا تصدیق اور بڑھا چڑھا کر نئی عالمی وبا یا وائرس کی نئے پھیلاؤ کی خبر کس تازیانے سے کم نہیں ہوتی۔ ایک عام بندہ جو سائنس اور تاریخ کی زیادہ معلومات نہیں رکھتا وہ نہیں جانتا کہ انفلوئنزا وائرس سے اصل تباہ کاری امریکہ میں ہوئی ہے۔ وہ ٹینشن کے وقت چین کا نام سنتا ہے اور اس طرح دنیا بھر میں چین کے خلاف نفرت اور حقارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھئے کہ عالمی طاقتوں کے اپنے اپنے مفاد ہوتے ہیں اور کڑے وقت پر کوئی آپ کی مدد کو نہیں آتا۔
فی الحال صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ بڑے بڑے برج الٹنے لگے ہیں، عالمی معیشتیں تیزی سے گراوٹ کا شکار ہیں اور امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی تاریخ کے بد ترین فسادات کا سامنا ہے۔ لہذا اندھا دھند میڈیا پر یقین کر نے کے بجائے از خود خبر کو پرکھنے کی عادت ڈالئے اور جس تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے اسے پڑھئے، اس کے سورس کو چیک کیجئے تاکہ آپ عالمی مفادات کی جنگ کا ایندھن بننے کے بجائے نا صرف باخبر رہیں بلکہ صحیح اور غلط میں تمیز کرکے اپنی حفا ظت از خود کر سکیں۔