فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں کرپشن،لوٹ مار،غیر قانونی بھرتیوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایف سی ایس میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملازمین کو بلاجواز ملازمت سے فارغ کیا گیا اوران کی جگہ من پسند لوگوں کی بھرتی کی گئی۔ اس سلسلے میں فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی ایمپلائیز یونین نے اس کرپشن کے خلاف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر کوآپریٹیو جام اکرام کو سوسائٹی میں ہونے والے کرپشن اور اقرباپروری سے متعلق دستاویزات پرمشتمل ثبوت دیئے ہیں۔
یونین کے مطابق جب موجودہ چیئرمین آئے تھے اس وقت سوسائٹی کے اکاؤنٹ میں 54 کروڑ روپے موجود تھے جسے انہوں نے ہڑپ کر لیا اور اب سوسائٹی کی یہ حالت ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں تنخواہوں، ریٹائر ہونے والے ملازمین کی گریجویٹی اور ماہی گیروں کی ویلفیئر کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس کرپشن کو بے نقاب کرنے پر سوسائٹی کے چیئرمین نے فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی ایمپلائیز یونین کے جنرل سیکریٹری سعید بلوچ کو ملازمت سے فارغ کردیا۔ برٹش راج کے دور میں ہارون فیملی، جاموٹ برادری، میر بحر کمیونیٹی، سنگھور قبیلے سمیت دیگر ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رہنماؤں نے ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کیلے ایک انجمن کا قیام لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ 1945 میں کھڈہ مارکیٹ لیاری میں ایک اجلاس کے دوران کیا گیا۔
اجلاس میں لیاری سے تعلق رکھنے والے سابق گورنر سندھ، محمود اے ہارون، میربحر کمیونیٹی اور جاموٹ برداری کے بزرگ رہنما حاجی ولی محمد جاموٹ، سنگھور قبیلے کے سرکردہ رہنما سیٹھ دیدگ عیسیٰ سنگھور اور دیگر معززین نے شرکت کی۔ اجلاس میں غیرسرکاری انجمن کا نام فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی رکھا گیا۔ محمود اے ہارون فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے بانی چیئرمین منتخب ہوگئے۔ جبکہ سیٹھ دیدگ عیسیٰ سنگھور حاجی ولی محمد جاموٹ سمیت دیگر سات ڈائریکٹرز منتخب ہوگئے۔فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے جنرل باڈی کے فیصلے کی رْو سے ہر تین سال بعد سوسائٹی کے انتخابات لازمی قراردیئے گئے۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ماہی گیروں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے فنڈز اکٹھا کیا جائے۔ تاکہ اس فنڈز سے ماہی گیر علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولت کی فراہمی کی جائے۔ اور ماہی گیری کے جدید آلات یعنی جال اور انجن بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ معاشی طورپر مستحکم ہوسکیں۔ جس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا۔ جو کشتی یا لانچ مچھلی لائیگی۔ اس کی قیمت کا سوا چھ فیصد کمیشن سوسائٹی کے پاس جمع ہوگا۔ ہر ممبر سوسائٹی کا شیئر ہولڈر ہوگا۔ یعنی سوسائٹی کی ملکیت کا مالک اور قانونی دعویدار ہوگا۔ ملکیت کے دعوے کوباقاعدہ آئینی شکل دی گئی۔ جو اب بھی سوسائٹی کے قوانین میں موجود ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کی مزید تنظیم سازی کی گئی۔ جس کے نتیجے میں سوسائٹی کراچی کے علاقے کھڈہ، کلری، ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ، ریڑھی گوٹھ، لٹھ بستی، شمس پیر، بابا بھٹ، صالح آباد، ککا ولیج، سنگھور پاڑہ ماری پور، ہاکس بے، لال بکھر اور مبارک ولیج سے نکل کر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور تحصیل اورماڑہ کے علاقوں میں پھیل گئی۔ جن میں اللہ نہ گدور گوٹھ، موالی، گڈانی، لاکھڑا، سونمیانی ڈام، کنڈ ملیر اور اورماڑہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سوسائٹی کو ضلع بدین اور ٹھٹھہ تک بھی منظم کیا گیا۔ اس طرح سوسائٹی سندھ اور بلوچستان کے ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی تک پھیل گئی۔
اس طرح سوسائٹی ایک منافع بخش ادارہ ہوگیا۔ مالی حوالے سے مستحکم ہونے کے بعد سوسائٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے یہ فیصلہ کیا کہ ماہی گیروں کے لئے کوئی جیٹی (بندرگاہ) نہیں ہے۔ نئی جیٹی تعمیر کی جائے۔ کیونکہ اس زمانے میں ماہی گیر کیماڑی بندر استعمال کرتے تھے۔ کھارادر اور کھڈہ مارکیٹ میں مچھلی کی نیلامی کی جاتی تھی۔ آج بھی اس کی نشانی ایک مسجد کی شکل میں موجود ہے۔ جو ناخدا مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ ناخدا مسجد ایک بلوچی لفظ ہے اس کا مطلب ہے کشتی یا لانچ کا کیپٹن ہوتا ہے۔ آج بھی اس مسجد کے پیش امام، سربازی بلوچ ہیں۔ مسجد کے پیش امام، حاجی انور سربازی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے بشیر سربازی مسجد کے انتظامات دیکھتے ہیں۔
ون یونٹ کے دور میں سوسائٹی کے بانی چیئرمین محمود اے ہارون نے صدر ایوب خان کو ماہی گیروں کے لئے ایک جیٹی بنانے کی درخواست دی اور کہا کہ منصوبے پر جو بھی لاگت آئیگی۔ وہ رقم سوسائٹی حکومت کو واپس کردے گی۔ اس شرط کی بنیاد پر ایوب خان نے ویسٹ وہارف کے مقام پر ایک فش ہاربر تعمیر کیا۔ جس کا افتتاح خود صدر ایوب خان نے خود کیا۔صدر ایوب خان کی درخواست پر سوسائٹی کے تین سرکاری ڈائریکٹرز مقرر کئے گئے۔ جن میں کراچی کمشنر سمیت دیگر بیس سے بائیس گریڈ کے بیورکریٹس شامل کئے گئے۔
اس کے لئے باقاعدہ سوسائٹی کے قوانین کو تبدیل کیا گیا۔ اس طرح سوسائٹی کے ڈائریکٹرز کی تعداد دس ہوگئی۔ جن میں سات منتخب (عوامی) اور تین سرکاری ڈائریکٹرز شامل ہیں۔ اور منتخب ڈائریکٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین ہمیشہ منتخب نمائندوں میں سے ہوتا تھا۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ سوسائٹی کی آمدنی بڑھتی گئی۔ مختلف اداوار میں سوسائٹی پر قبضہ کرنے کے لئے حربے تلاش کرنے لگے۔ کس طرح یہ ایک غیرسرکاری انجمن اور ماہی گیروں کی جائیداد کو قبضہ کیا جائے۔ بالآخر نوے کے دہائی میں حکومت نے ساز باز کرکے سرکاری ڈائریکٹروں کی تعداد تین سے آٹھ کردی۔
اور عوامی منتخب ڈائریکٹروں کی تعداد کم ہوگئی۔ اس طرح سوسائٹی کا پر قبضہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہوگیا۔ ماہی گیر سوسائٹی کے مالک ہونے کے باوجود سوسائٹی سے باہر ہوگئے۔ حالانکہ فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کی جنرل باڈی کو یہ قانونی اور آئینی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ سرکاری ڈائریکٹروں کو نکال باہر کرسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریت و مفلسی کا شکار ماہی گیر سندھ حکومت اور فشریز مافیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟۔ جن کے پیٹ میں روٹی نہیں، پاؤں میں چپل نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں اور زندہ رہنے کے لئے سمندری طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنا ہے۔
موجودہ سوسائٹی کے چیئرمین عبدالبر کو دوسرے صوبے (پنجاب) سے لایا گیا۔ پیپلز پارٹی حکومت نے اس اقدام سے صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی کی۔ ایک جمہوری پارٹی کہلانے والی جماعت نے غیر جمہوری اقدام اٹھایا۔ جمہوریت پسندی کی لبادے میں ایک آمرانہ سوچ کے تحت ایک نان پروفیشنل شخص کو اتنا بڑا عہدہ سونپ دیا۔جس کو فشریز کے الف سے ب تک کا پتہ نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی بنیادوں پر نوازنے کا حربہ تھا۔ جس کے نتائج آج سامنے آچکے ہیں۔ سوسائٹی مالی بحران سے گزررہی ہے۔
تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہے۔حالانکہ پی پی حکومت کے پاس بے شمار باصلاحیت شخصیات موجود ہیں۔ جو اس ادارے کے بھاگ ڈور کو بہتر انداز میں سنبھال سکتے تھے۔ جہاں فش ہاربر قائم ہے۔ اس علاقے سے پی پی کی نشست پر کامیاب ہونے والا رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کو یہ عہدہ دیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کے باپ دادا نے اس سوسائٹی کی بنیاد رکھیں۔ اور باقاعدہ سوسائٹی کے شیئر ہولڈرز بھی ہیں۔ پٹیل صاحب نے ایک ماہی گیر گھرانے سے آنکھ کھولی۔ فشریز کی صنعت سمیت ماہی گیروں کے مسائل سے باخوبی واقف بھی ہیں۔ اس کے پاس ماہی گیروں کا مینڈیٹ بھی ہے۔ اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہے۔
دوسرا آپشن کراچی کی ساحلی پٹی سے کامیاب ہونے والا رکن سندھ اسمبلی لیاقت آسکانی ہے۔ ماضی میں اس حلقے سے کامیاب ہونے والا پی پی کے سابق ایم پی اے لال بخش بھٹو بھی سوسائٹی کے چیئرمین رہیہیں اوربہت اچھے انداز میں سوسائٹی کو چلایا۔تیسرا آپشن لیاری سے چیئرمین لینا چاہئے تھا۔ کیونکہ لیاری کی ستر فیصد آبادی کا تعلق فشریز کی صنعت سے ہے۔ لیاری سے سینیٹر یوسف بلوچ، اور نبیل گبول جیسے بہترین عوامی لیڈرز موجود ہیں۔پی پی حکومت نے سوسائٹی میں ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کی۔ ان کے دو سابق چیئرمینز کرپشن کو وجہ سے جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
جن میں نثار مورائی اور سعید خان شامل ہیں۔لیکن اب کی بار پی پی کے نامزد چیئرمین نہ صرف حکومتی اداروں کے گرفت میں آکر جیل جائینگے بلکہ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سے آئندہ آنے والے عام انتخابات میں پی پی کو بری طرح شکست ہوسکتی ہے۔ یہ ساحلی پٹی بدین سے لیکر گوادر تک پھیلا ہوئی ہے۔شاید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کے اندر سیاسی کلچر کا خاتمہ ہوگیا۔
اس کی جگہ غیر سیاسی قیادت نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ وہ پی پی کو روایتی انداز میں چلارہے ہیں۔ دراصل سیاست ایک مکمل سائنس ہے۔ جس کو پولیٹیکل سائنس کہا جاتا ہے۔ کسی بھی جماعت یا ادارے کو مضبوط اور متحرک کرنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جاتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ آج پارٹی غیرسیاسی ٹولے کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔ جس کے منفی اثرات پارٹی پر پڑھ رہے ہیں۔