|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2020

سیاسی جماعت، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو کسی بھی خطے میں ریاست کی حکومت میں سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت کسی بھی ریاست میں انتخابی مہم،صحت عامہ کی سہولیات،عوامی کی فلاح و بہبود کی ترقی، بنیادی انفراسٹرکچر کے فروغ، تعلیمی اداروں میں فعالیت یا پھر عوامی احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودگی اور سیاسی طاقت کا اظہار کرنا جماعتوں کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنے نظریات، منصوبہ جات اور اپنے نقطہ نظر کو تحریری صورت میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جو اس جماعت کا منشور کہلاتا ہے۔

جو اس مخصوص سیاسی جماعت کی ذہنیت اور مخصوص اہداف کے بارے عوام کو آگاہ کرتا ہے۔ اسی منشور اور اہداف کی بنیاد پر ریاست میں سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد بنتے یا پھر ٹوٹتے ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے چند دنوں قبل صوبہ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کی اولین ترجیح بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ، صوبے کے حقوق اور بیروزگاری کے تدارک سمیت دیگر اہم اہداف کے حصول کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی منشور جاری کی گئی یقینا بلوچستان کے سادہ لوح عوام نے چند دنوں کی تشکیل کردہ پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے کئی سالوں سے سیاست اور نظریات کے پرچار کرنے والے سیاسی پارٹیوں کو حیران و ششدرکر دیا اور انہیں یہ احساس دلایا کہ عوام کام کے بجائے جزباتی نعروں اور وعدوں پر ہی مطمئن ہو جاتی ہے۔

اسی وجہ سے ہی بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی اوراسی کامیابی کے باعث بلوچستان صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے لیکن اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ باپ پارٹی کے اراکین اور قائدین ایوان کی یخ بستہ اور ٹھنڈے راہداریوں میں اقتدار کے مزے لیکر عوام اور صوبے کے حقوق کو یکسر بھول چکے ہیں۔وفاق سے بلوچستان کے حقوق لینے والے نعرے اور وعدے لگانے والی پارٹی وفاق کی ناراضگی کا شاہد متحمل نہیں ہو رہی، 18ویں ترمیم کے اختیارات کے باوجود بلوچستان واحد صوبہ ہے کہ وہ اب تک وفاق کے احکامات اور ڈائریکشن کے تحت چل رہی ہے۔

وفاقی حکومت نے اس بار بلوچستان عوامی پارٹی کے اس نعرے کو اس وقت غلط ثابت کیا جب مرکزی بجٹ میں صوبے کے سوائے چند معمولی منصوبوں کے دیگر اہم اور میگا منصوبے نکال دیئے لیکن جام کمال خان اور باپ پارٹی نے اپنی صبر اور استقامت کا دامن نہ چھوڑا اور نہ ہی وفاق سے احتجاج تک کیا۔ شاید جام کمال خان سے باپ کے آقا یا بڑے ناراض نہ ہوں اور ان کی وزارت اعلیٰ خطرے میں نہ پڑ جائے جبکہ “باپ”کے سیاسی قیادت نے صوبے کی پسماندگی، عدم ترقی، ،محرومیوں کے خاتمے اور صوبے کو ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا جو نعرہ لگایا تھا۔

اس نعرے پر عمل نہ کرکے “باپ پارٹی” نے خود ہی اپنی سیاسی نعرے کا پردہ چاک کیا “بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل اپنے متعدد میڈیا ٹاکس میں اس امر کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کی نرسریاں بنانے کے رواج کو فروغ دیا گیا ہے جوکہ صوبے کی ترقی نہیں بلکہ اس طرح کے تجربات صوبے میں کرپشن کے فروغ کا ایک ذریعہ ثابت ہو نگے۔ چالیس دن کے قلیل اور مختصر ترین عرصے میں برائلر مرغی تیار نہیں ہوتی لیکن بلوچستان میں مختصر وقت میں پارٹی لانچ کرکے انہیں بلوچستان کے سیاہ وسفید کا مالک بنایا جاتا ہے۔

تو پھر ایسے اقتدار کے شوقین اور مختصر مدت میں تیار ہونے والے سیاستدان بلوچستان کو کیونکر ترقی کے ٹریک پر گامزن کر سکتے ہیں۔” ہم اگر ان باتوں سے اتفاق کریں تو طویل اور قلیل مدتی سیاست میں اب بڑا فرق محسوس ہو رہا ہے حقیقی سیاست میں اس طرح کی سیاسی روایات نظریاتی تنظیموں اور قوم پرست جماعتوں کیلئے نقصان کا موجب بن چکے ہیں لیکن نئی پارٹی بنانے کی روایت جنرل مشرف کے دور حکومت میں ایجاد کی گئی اور اس وقت کے کامیاب تجربہ کے بعد پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کو پارلیمانی سیاست میں کامیابی ملی اور پھر کامیابی کے بعد پی ایم ایل قائد اعظم کو پاکستان کی حکومت سونپ دی گئی تھی لیکن پرویز مشرف کے جانے کے بعد قاف لیگ عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکی جیسے پہلے ملی یا دلائی گئی۔

تھی بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست بھی صوبے کی ترقی اور پسماندگی کے خاتمے میں تاحال وہ کردار ادا نہیں کر سکی ہے تاہم صوبے کے قوم پرستوں کو بلوچستان میں حکمرانی کے لیے انتہائی کم وقت ملا ہے لیکن بلوچستان کے عوام کو ان قوم پرستوں سے جتنی توقعات تھیں ان توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں تاہم بلوچستان کی پسماندگی عدم ترقی اور بدحالی کا ذمہ دار ہمارے اپنے صوبے ہی کے محسن نما دشمن سیاست دان بیورو کریسی و دیگر طبقات ہیں جو ہمیشہ ہی سے منتخب ہو کر بلوچستان کو عدم ترقی اور محرومی کا شکار کرتے آ رہے ہیں۔

بلوچستان کو جنرل مشرف کے دور میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا بڑا عہدہ میر ظفراللہ خان جمالی کی صورت میں ملا جس پر بلوچستان بھر کے سیاسی سماجی اور قبائلی حلقوں بلخصوص نوجوانوں میں خوشی کا سماں تھا کہ اب کے بار وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی بلوچستان کی ستر سالہ پسماندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیں گے بلوچستان کو اس کا جائز حق دلائیں گے بلوچستان کو جدید ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کریں گے،مرکزی ملازمتوں میں بے روزگار بلوچستانیوں کو روزگار کے وسیع مواقع میسرآسکیں گے، صوبے میں تیز رفتار ترقی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔

لیکن شومئی قسمت میر ظفراللہ خان جمالی کے دور وزارت عظمیٰ میں بلوچستان میں یہ سب توقعات، امیدیں منصوبے اور خوشحالی کے سہانے خواب ثابت ہوئے۔صوبے کی پسماندگی محرومیوں اور مسائل میں کمی کے بجائے مزید مشکلات درپیش ہوئے بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ اور پسماندہ رکھنے کی پالیسی یا منطق کو نہ تو عوام سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے اراکین اسمبلی حقیقی معنوں میں صوبے کی ترقی کیلئے مخلصانہ کردار ادا کر سکے ہیں۔ بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی جب قومی اسمبلی میں جاتے ہیں تو وہ بلوچستان کے بجائے اسلام آباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ان کے سامنے صوبے کے مسائل نہیں بلکہ اپنے ذاتی مقاصد اور منصوبے ہوتے ہیں وہ بلوچستان کے مسائل کے بجائے چند منصوبوں کے حصول کیلئے سرگرداں ہو کر بلوچستان کے حق نمائندگی کا مجرم بنتے جا رہے ہیں۔ کیا قومی اسمبلی کے 20 اراکین صوبے کے حقوق کیلئے یک زبان ہوکر بلوچستان کی نمائندگی کا حق ادا کر سکے ہیں؟ کیا بلوچستان کے جائز مسائل اور ترقی کیلئے پارٹی پالیسیوں کے بجائے بلوچستان کی ترقی کیلئے آواز یا سیاسی جدوجہد کرنا گناہ ہے؟ کیا ان تمام پارٹیوں کے منشور میں بلوچستان کو ترقیاتی منصوبوں میں اولیت دینے کے نعرے اور وعدے نہیں ہوتے؟

کیا پسماندہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر اولیت دینے کا حق آئین پاکستان نہیں دیتا؟ لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے گونگے بہرے نمائندے بلوچستان کی ترقی اور پسماندگی پر بات کرنا شاید اپنی نوکری خطرے میں ڈالنے کے مترادف سمجھتے ہیں اگر اسی طرح وہ کبھی غلطی سے بلوچستان کی بات کرنے کی کوشش کی تو مستقبل میں وہ رکن بننے کے حق سے شاید محروم ہو جائیں گے شاہد یہی وجہ ہے کہ ہمارے نمائندے بلوچستان کے حق اور صوبے کی ترقی کیلئے آواز بلند نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی سے عوام کی تمام تر توقعات زمین بوس ہو چکی ہیں بی اے پی صوبے کی ترقی کیلئے نہ تو مخلص ہے۔

اور نہ ہی بلوچستان کی ترقی ان کی ترجیحات میں شامل ہے ان کی اولین ترجیح شاید کسی کی خوشنودی ہے بلوچستان میں جب تک حقیقی سیاسی پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ بند نہ ہوگا اس وقت تک بلوچستان کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہرگز نہیں ہو سکے گا جبکہ بلوچستان کی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ صوبے میں کرپشن اور اقربا پروری ہے صوبے میں کرپشن ختم کئے بغیر بلوچستان قیامت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکے گا۔ بلوچستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے ٹھوس اور حقیقی معنوں میں سخت قوانین بنانے ہونگے اور کرپشن میں ملوث لوگوں کو بلا امتیاز سزائیں دینے اور کاروائی کرنے سے ہی بلوچستان ترقی کے شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہو سکتا ہے۔

صوبے کے تمام اداروں میں سفارشی کلچر اور سیاسی اثر و رسوخ کے تحت تبادلے کے روایات ختم کرنے ہونگے اور ساتھ ہی ایک ایسا ادارہ بنانا ہوگا جو تمام آفیسران بشمول کلرک سے لیکر سیکرٹری لیول تک ان کے کام اور معیار کی مانیٹرنگ کرے ان کے اثاثے چیک کرے اور کسی بھی منصوبے میں شکایات ملنے پر میرٹ پر آزادانہ تحقیقات کرکے فیصلے کئے جائیں تو پھر بلوچستان پاکستان کا جدید اور تیزی سے ترقی کرنے والا صوبہ بن جائے گا۔

اور صوبے کے عوام بھی ترقی کے جدید سہولیات سے مستفید ہو سکیں گے۔ تاہم اس طرح کے اقدامات یقینا انقلاب ہی کے مترادف ہیں اگر اس طرح کی جدید اصلاحات لازمی قرار دی گئیں تو بلوچستان واقعی نیا بلوچستان بن کر سنگاپور بنے گا اور پاکستان بھی حقیقی معنوں میں ایشین ٹائیگر بن جائیگا۔