میری پندرہ سالہ صحافتی زندگی کی خوش قسمتی کہہ لیں کہ صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہی جو افراد مجھے ملتے گئے انہوں نے مجھے اس مقام پر پہنچانے میں میری مدد اس حد تک کی کہ میں چاہ کر بھی کوشش کرکے بھی انکے کسی احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اللہ ماما صدیق بلوچ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،میری پرنٹ میڈیا کے دن تھے جب انکی رہنمائی ملی اور انہوں نے اویس توحید تک پہنچایا اور اویس توحید کے ذریعے وسیم احمد جیسا سینئر دوست ملا۔
صحافت کے دو بڑے نام ماما صدیق بلوچ اور اویس توحید کیساتھ ساتھ وسیم احمد کا ملنا مجھے بہت کچھ سکھا گیا اور یہ سیکھنے کا عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ماما کی جگہ اب بہت سے امور پر آصف بلوچ سے رہنمائی ملتی ہے، دوسری جانب ہر مشکل گھڑی میں ہلکی پھلکے انداز میں اویس توحید کا میری ہر چیز میں رہنمائی کا سلسلہ جاری ہے البتہ وسیم احمد مجھ سے سینئر تو ضرور ہیں لیکن جو جسارت کہیں اور نہیں کرپاتا وہ وسیم احمد کیسامنے کر جاتا ہوں۔
یہ تمہید اسلئے باندھ رہا ہوں کہ ملک کی صورتحال سے لیکر خطہ کی صورتحال پر میری رائے کو ہمیشہ انہی تین افراد نے درست کیا ہے، کل رات ٹویٹر دیکھ رہا تھا سوشل میڈیا ہو یا ٹیلی ویژن میڈیا یا پھر پرنٹ میڈیا سب کی خبر وں میں کہیں پنجاب میں عثمان بزدار کا دھڑن تختہ ہو رہا ہے تو کہیں مائنس عمران کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پہلے بلوچستان کی باری آئیگی کوئی کہتا ہے نہیں عمران خان کو ہٹا کر صدر بنایا جائیگا، کوئی کہتا ہے کہ بزدار بچ گئے کوئی کچھ تو کوئی کچھ، رہی سہی کسر صحافی مطیع اللہ جان کے واقعے نے پوری کردی۔
جب یہ سب دیکھ، سن اور پڑھ رہا ہوں تو ماما صدیق بلوچ مرحوم کیساتھ گزارے کچھ لمحے یاد آرہے ہیں جب وہ سوال کرتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے تو میں بلوچستان اور کوئٹہ کی سطح کی دو خبریں بتاتے ہوئے فخریہ انکی طرف دیکھ کر سوچنے لگتا کہ ماما کہیں گے واہ کیا باخبر صحافی ہو اور ماما خاموشی سے سر ہلاتے اپنے کام میں مصروف رہتے۔ جب وہ اپنی تمام ذمے داری یعنی آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کیلئے تمام روٹین کا کام نمٹا لیتے تو پھر پوچھتے۔آج ایڈیٹوریل پڑھا؟
بس یہاں ہم پھنس جاتے اگر پڑھ لیا تو بچ گئے ورنہ مارے گئے لیکن ایک خوبی ماما کی تھی وہ کسی چھوٹے معاملے کو پہلے شہر پھر صوبے اور اسکے بعد ملک اور پھر خطے کیساتھ جوڑ کر سمجھاتے اور تاکید کرتے کہ ہمیشہ بڑی چیز کو سوچو تو زندگی میں کامیاب رہوگے۔ماما کا مطالعہ بہت وسیع تھا خاص کر افغانستان ایران اور بلوچستان پاکستان کے رشتوں اور پاکستان کے چائنا بھارت کیساتھ تعلقات اور مشرق وسطٰی کے معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔
بقول نواب اسلم خان رئیسانی کہ جن معاملات پر صدیق بلوچ اور وہ تنہائی میں دس سال قبل بات کرتے تھے آج وہ چیزیں دنیاکے سامنے آرہی ہیں،ایسی ہی کچھ صورتحال مجھے اس وقت بھی یاد آتی ہے جب ہم اویس توحید کے گھر رات گئے تک بیٹھ کر کچہری کرتے جہاں میری اور وسیم احمد کی رائے پر اویس توحید ہمیں ماما کی طرح چھوٹی پکچر سے بڑی اسکرین دکھاتے تھے۔ چند دنوں سے کسی بات پر کچھ لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن انتظار تھا کہ کون کب اس بات پر بات کریگا، کچھ عالمی اداروں کیلئے جو خبر بہت اہم ہے۔
وہ ہمارے قومی میڈیا کیلئے اہم نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ قومی میڈیا میں ایڈیٹر کا رول نظر ہی نہیں آتا اور جن تین افراد کی کہانی اوپر بیان کرچکاہوں یہ تین افراد میری نظر میں مکمل ایڈیٹر تھے، ہیں اور رہیں گے۔ گزشتہ دس دن سے جو سوچ رہا ہوں محسوس کررہا ہوں اسے قلمبند کرسکوں بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے اسے بھی دیکھ رہا ہوں چائنہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر جو ہو رہا ہے وہ بھی نظر آرہا ہے بحر ہند میں امریکی بحری بیڑہ بھی پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔
افغانستان کی صورتحال بھی بڑی اہم ہے یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اس سب میں ہم کیوں اہم ہیں گزشتہ پندرہ سالوں میں بہت سی آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ بریفنگز اٹینڈ کرچکا ہوں۔ دفتر خارجہ کے بیانات بھی سن لئے لیکن چند روز قبل جو سنا وہ اہم ہے۔ چائنا اور ایران کا حالیہ ممکنہ معائدہ اور چاہ بہار سے زاہدان ریلوے لائن منصوبے سے بھارت کی چھٹی کسی کیلئے بڑی خبر ہو یا نہ ہو میرے لئے بہت اہم ہے۔کیوں اہم ہے؟چند سال قبل رمضان کی ایک افطار میں چند صحافی مدعو تھے میں بھی اس وفد کا حصہ تھا۔
یہ افطار ایک آف دی ریکارڈ سیشن تھا جہاں بلوچستان،پاکستان اسکی سیکیورٹی صورتحال پر کھل کر بات ہوئی۔ اس سیشن میں ایک اہم بات ہوئی اور وہ بات یہ تھی کہ ہمیں یعنی پاکستان کو ایران کیساتھ معاملات بہتر کرنے ہونگے، میرے لئے یہ جملہ حیران کن تھا میں سمجھتا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم ایران سے صرف ایسا رشتہ چاہتے ہیں کہ بس سلام دعا رہے، اس سے زیادہ رشتہ استوار کرنے پر ہمارے سعودی مہربان ناراض ہوجائینگے۔
چلیں اس بریفنگ کے بعد ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اور جہاں ایک طرف معاملات بہتر ہونے کی نوید سنائی جارہی تھی وہیں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیوکی گرفتاری کی خبر میڈیا کی زینت بن گئی اور اسکے ایران سے آپریٹ کرنے کے معاملے کے بعد سارا کھیل بگڑتا ہوا لگا۔ کچھ روز بعد ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان ایران سے تعلقات کی بہتری چاہتا تھا لیکن جو کچھ ایران سے ہو رہا تھا اس بات کو ایران تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔
اسلئے ایران کے صدر کے دورے کے دوران یہ سب کچھ ہوا، پھر اسکے بعد کچھ چیزیں یکے بعد دیگرے ایسی ہوئیں جن میں ایران کو پاکستان سے واضح پیغامات ملنا شروع ہوئے اور پھر بھی صبر اور ضبط کے ساتھ ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا جاتا رہا۔گوادر پورٹ کا کنٹرول چائینیز نے سنبھالا تو بھارت نے چاہ بہار میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کردیا،ایک ایسا تاثر دیا گیا کہ چاہ بہار کی بندر گارہ کو بھارت گوادر کے مد مقابل ابھارنا چاہ رہا ہے۔
بہت ہی خاموشی کیساتھ اس وقت کے میری ٹائم کے وزیر میر حاصل خان بزنجو نے دورہ ایران میں ایک ایسی تجویز رکھی جس میں گوادر اور چاہ بہار کو سسٹر پورٹ قرار دیا جائے اور اسکے لئے ایک مفاہمتی یاد داشت پر دستخط بھی ہوگئے۔ یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب بھارت بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کرچکا تھا۔ میرے لئے یہ حیران کن بھی تھا جب میر حاصل خان بزنجو سے ملاقات ہوئی تو میرے سوال پر وہ حسب عادت مسکرائے اور کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گوادر اور چاہ بہار کی پورٹ ایک دوسرے کے مد مقابل ہونگی۔
وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور اس تاثر کو زائل کرنے کا یہ پہلا قدم ثابت ہوگا۔ کچھ تکنیکی وجوہات کیساتھ ساتھ چائنا کے ارادوں سے بطور وزیر میری ٹائم میر حاصل خان بزنجو بریف تھے تو انہوں نے وہ باتیں بتائیں تو کچھ قائل ہونے کو دل نے کیا لیکن کیا کرتا بھارتی سرمایہ کاری بھی تو سامنے تھی پھر بھی میر حاصل خان کی بات کو اپنے ساتھ لیکر چل پڑا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی چاہ بہار میں سرمایہ کاری کی اہم وجہ حب علی نہیں گوادر کیلئے اسکا بغض تھا اور یہ حقیقت ہم جانتے ہیں۔
اور یہ بھی جانتے ہیں بھارت سرکار ایران کیلئے اعلانات تو کرسکتی ہے لیکن بھاری سرمایہ کاری کرکے امریکا سرکار کو ناراض نہیں کرسکتی۔اسلئے پاکستان اور چائنا نے اپنی اپنی سطح پر ایران کوانگیج رکھنے کی کوششیں جاری رکھیں اور اب اسکے نتائج آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ذمے دار ذرائع یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عراق میں امریکی حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے مارے جانے کے بعد ایران کے پاکستان کیلئے رویوں میں کچھ تبدیلی محسوس کی جارہی ہے۔
جسکی ایک بڑی وجہ ممکنہ طور پر صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ امریکہ اور مڈل ایسٹ کے مقابلے کیلئے ایران کومعاشی طور پرمستحکم کسی بڑی طاقت کی بھی ضرورت ہے اور وہ طاقت ہے چائنا۔ پھلتے پھولتے چائنا کو گوادر میں بیٹھ کر اور چاہ بہار میں دوستی کے ہاتھ بڑھانے نے اس روٹ پر ایک بھر پور کنٹرول فراہم کردیا ہے جس روٹ سے تیل کی نقل وحمل ہوتی ہے۔ مشرق وسطٰی کے جو ممالک تیل کی پیداوار کے بڑے نام ہیں وہ ایران مخالف ہیں اور اسی کا فائدہ چین اٹھانا چاہتا ہے اور چین کو امریکی پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اب خطے کے دو ممالک بھارت اور پاکستان کیلئے فیصلے کی گھڑی ہے۔
اب عالمی صف بندیاں ہو رہی ہیں، نئے ورلڈ آرڈر کے تحت کچھ دور رہنے والوں کو دوست اور کچھ بظاہر قریب رہنے والوں کو فاصلوں پر بھیجنا ہوگا یہ فیصلے انتہائی اہم ہونگے، یہ قوموں کی قسمت اور انکا عالمی رول ڈیفائن کرینگے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال اور حالیہ چین اور ایران کی بڑھتی قربتیں ایک اہم موقع فراہم کرہی ہیں اگر ان فیصلوں میں کوئی کوتاہی یا تاخیر ہوئی تو چاہے چین جتنا بھی ہمارے قریب ہو، جتنی گہری دوستی ہو، وہ پہلی ترجیح اپنے مفادات کو دے گا،اگر چین کے ایران اور افغانستان کیساتھ بہتر تعلقات کا فائدہ ہم نے اٹھانا ہے۔
تو ہمیں اپنا ہاؤس ان آرڈر رکھنا ہوگا اور بہتر اور بڑے فیصلے لینے ہونگے بصورت دیگر کوئی دوسری قوم آپ کا درد اس وقت تک نہیں بانٹے گی جب تک درد سانجھا نہ ہو۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں اس وقت دنیا ایک جنگی کیفیت میں تو رہ سکتی ہے لیکن کوئی بھی طاقت براہ راست جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، اسلئے پراکسیز کا سلسلہ جاری رہیگا،اقوام کے بیچ عدم اعتماد کی فضاء کو ہوا دی جائیگی اگر اس صورتحال میں بہتر اور دور رس فیصلے لئے گئے اور صورتحال کو بہتر ہینڈل کیا گیا تو بلوچستان پاکستان کی قسمت کیلئے انتہائی اہم ہوگا۔
اور یہ سب سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ ساز قوتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی معاشی لائف لائن بلوچستان ہے اور اس معاشی لائف لائن کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے جڑتی ہیں اور چائنا کیلئے گیٹ وے گوادر ہے،اسلئے اس معاشی لائف لائن بلوچستان کو محفوظ بنانے کیلئے حقیقی ترقی کے ثمرات بلوچستان کے چرواہے تک پہنچانے ہونگے چاہے اسکے لئے ہمارے سیاسی سسٹم بالخصوص بلوچستان کے سیاسی سسٹم کی اپ گریڈیشن ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ دنیا کی دیگر اقوام بڑے فیصلوں پر سوچ بچار کررہی ہیں اسلئے ہمیں بھی بڑی خبر کو بڑا مان کر بڑے فیصلے کرنے ہونگے نیوز روم میں بڑی خبر کا فیصلہ ایڈیٹر اور قوموں کی قسمت کے بڑے فیصلے لیڈر کرتے ہیں۔