حالیہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر چین کی ساکھ متاثر کرنے کے لئے امریکی حکومت کے ساتھ انٹر نیشنل میڈیا جس طرح سر گرم ہوا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عالمی میڈیا کی خبروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین اپنا نام، مقام اور ایک ٹیکنالوجی سپر پاور کی حیثیت سے حاصل شدہ عزت و وقار سب بھول کر محض دنیا کو نقصان پہنچانے کے مشن پر کمر بستہ ہے۔ حالا نکہ اس سے سب سے زیادہ نقصان چین کا اپنا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اس کی تجارتی سر گرمیاں اس وقت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا مطالبہ کر تی ہیں اور چینی حکومت و کمپنیاں بار بار اس عہد کا اعادہ بھی کر چکی ہیں۔
شاید یہی خو ف امریکہ سے چین پر تیسرے درجے کے حملے کروا رہا ہے جس کی ایک مثال کل امریکی ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے چین پر لگایا جانے والا نیا الزام ہے کہ دو چینی باشندے 33 سالہ نام لی اور 34 سالہ ڈانگ نے امریکہ میں کورونا وائرس پر ہونے والے تحقیق کو چوری کرنے اور اس پر کام کرنے والی سینکڑوں کمپنیوں کو ہے کہ کرنے کی کوشش کی ہے جن میں دفاع کے کنٹریکٹرز بھی شامل ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں چینی باشندوں نے یا تو ذاتی مفاد یا پھر چینی حکومت کے ایما ء پر یہ ہیکنگ کرنے کی کوشش کی۔
مگر ساتھ کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا کہ آیا واقعی دونوں افراد کا چینی حکومت سے کوئی خفیہ تعلق تھا۔ مگر ساتھ کہا گیا کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بعد چین روس، ساؤتھ کوریا وغیرہ جیسے ممالک کے گروہ میں شامل ہو گیا ہے جو اس طرح کی شرمناک حرکتیں کرتے رہے ہیں۔اس پر چینی حکومت کی جانب سے ایک ٹویٹ میں فوری انتہائی سخت اور مذمتی بیان جاری کیا گیا اور امریکہ میں چینی سفیر نے کہا کہ چین میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری امریکہ سے بھی پہلے سے جاری ہے۔
اور اس طرح کے ہتھکنڈے چینی سائنسدانوں کی محنت کو سبوتاژ کرنے کی ایک بے ہودہ کوشش ہے۔ امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جو معلومات جاری کی گئیں ان کے مطابق لی اور ڈینگ الیکٹریکل انجینئرز ہیں اورگزشتہ دس سال سے ہیکنگ کی سرگرمیوں میں ملو ث ہیں۔ مگر ان کی سرگرمیوں کا چینی حکومت سے کیا تعلق ہے اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔جہاں تک امریکی الزام کا تعلق ہے تو ساری دنیا دیکھ چکی ہے کہ کورونا وائرس پر جس طرح اور مؤثر انداز میں چین نے قابو پایا ہے اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔
وائرس کے ابتدائی پھیلاؤ کے دنوں میں جب ڈانلڈ ٹرمپ صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے بجائے فضول بیانات دینے میں مصروف تھے چین نے مکمل اور بھرپور پلاننگ کے ساتھ لاک ڈاؤن لگا کر وائرس کو مکمل طور پر ختم کیا اور ساتھ ہی ویکسین کی تیاری میں بھی تیزی سے پیش رفت کی۔یقینا اس وقت صرف چین ہی نہیں امریکہ، بر طانیہ یہاں تک کے پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی زود اثر دوا یا ویکسین کی تیاری پر کام ہو رہا ہے مگر دیگر ممالک مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے یا الزام تراشیوں سے گریز کرتے ہوئے پوری تندہی کے ساتھ وائرس سے لڑنے میں مصروف ہیں۔
مگر امریکہ کا رد عمل شروع دن سے ” چائنہ وائرس ” رہا ہے۔حالانکہ نا صرف چینی حکام بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے امریکی حکام کو بار بار صحت سے متعلق عالمی قوانین اور اصولوں کی یاد دہانی کروائی گئی کہ ” ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جب کسی بھی ملک میں پھیلنے والی بیماری یا وائرس کو نام دیتا ہے تو اس بات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے کہ مذکورہ وائرس کی تاریخ میں متعلقہ ملک یا لوگوں کے حوالے سے کچھ تاثر شامل نہ ہو جس سے اس ملک کی ساکھ پر منفی اثر پڑتا ہو”۔کورونا وائرس کوئی نئی عالمی وبا نہیں ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں دنیا بھر میں کئی طرح کی بیماریاں اس سے کہیں زیادہ تباہی پھیلا چکی ہیں۔
زیادہ دور کیوں جائیں کیا امریکہ سے دنیا بھر میں پھیلنے والا مرض ایڈز ہم بھول گئے ہیں جو اب تک لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن چکا ہے اور دو دہائیوں بعد بھی ابھی تک اس کا کوئی مؤثر علاج یا ویکسین تیار نہیں ہو سکی۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کی ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کے مطابق انھوں نے اپنا ایم فل اور پی ایچ ڈی چین سے مکمل کیا ہے اور وہ وہاں ریسرچ کلچر کو بہت قریب سے دیکھ چکی ہیں۔ امریکہ کا ریسرچ معلومات چوری کا الزام چین کے خلاف انفارمیشن وار کا ایک انتہائی غلط وار ہے کیونکہ چینی سائنسدان نا صرف کورونا وائرس بلکہ دیگر امراض کی ریسرچ میں بھی بہت زیادہ سر گرم ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں سائنسدان تحقیق میں ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں۔
آپ نے اکثر نوٹ کیا ہوگا کہ میڈیسن یا کسی دوسری سائنس فیلڈ میں اعلیٰ تحقیق پر نوبل انعام تین افراد کو مشترکہ طور پر دیا جاتا ہے جن کا تعلق عموماً مختلف ممالک سے ہوتا ہے اور اس طرح باہمی تعاون سے تحقیق آگے بڑھتی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین دشمنی میں امریکہ ہر حد پار کرنے پر تلا ہوا ہے کیونکہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اہمیت سے خوفزدہ ہے۔ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر خان کے مطابق چین کورونا وائرس ویکسین کی تحقیق میں پاکستان کی معاونت بھی کر رہا ہے اور یہی عزم دوسرے ممالک کے لئے رکھتا ہے۔
یہ وقت چائنہ وائرس یا انفارمیشن وار میں ضائع کرنے کے بجائے اگر امریکہ اپنے اندرونی معاملات خصوصاً نظام ِ صحت پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ وبا سے سب سے زیادہ وہی متاثر ہوا ہے اور امریکہ سے باہر سفر کرنے والوں کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ چین یا کوئی بھی دوسرا ملک آئندہ چند ماہ میں ویکسین تیار کر لے گا۔ اگرچہ اس حوالے سے بین الااقوامی کمپنیوں میں مسابقت بہت زیادہ ہے مگر یہ کسی بھی کاروبار کا حصہ ہے اور مسابقت کو صحت مند حدود میں ہی رہنا چاہیئے۔