|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2020

آج کے جدید دنیا میں صحت کی بنیادی سہولت کیلیے انسانوں کو تذلیل سے گزرنا پڑ رہا ہے جب کہ روزگار چھن جانے کی وجہ سے بھوک کی وبا کورونا سے زیادہ اذیت ناک موت دے رہی ہے۔ انسانیت گراوٹ کی آخری سطحوں کو چھو رہی ہے۔ عالمی نظام اپنی منطقی انجام کے پیشِ نظر شدید بحران کا شکار ہے مگر کورونا نامی وبا نے اس کے تمام تر پوشیدہ بحرانات کو شدت کے ساتھ آشکار کر دیا ہے جس سے دنیا بھر میں شدید عدم استحکام جنم لے چکی ہے اور دنیا کی معمول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ترقی یافتہ دنیا کی برباد صورتحال کے اندر پاکستان خاص کر بلوچستان جیسے نوآبادیوں کی کیفیت انسانی سماج کی کسی بھی معیار پر کہیں پورا نہیں اترتی۔

لوٹ کھسوٹ، کشت و خون، عدم تحفظ، بھوک و افلاس، بیروزگاری، صحت و تعلیم کی سہولیات کی عدم موجودگی گویا یہاں کے واسیوں کی مقدر بنا دی گئی ہے۔وبا کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسی تناظر میں ”شیڈ بلوچستان آرگنائزیشن، آواز پاکستان فاؤنڈیشن کے اجالا پروجیکٹ کے تحت”ایک سروے کیا گیا جس سے انسان کی سماجی رویوں اور عالمی وباء کے باعث لوگوں میں بتدریج بڑھتی ہوئی نفسیاتی اثرات و دیگر مسائل کے بارے تاثرات لیے گئے۔ جہاں تفریقی مساوات کا شکار معاشرہ کورونا وائرس کی وجہ سے مزید بحرانوں کا شکار ہو رہا ہے۔

اس دورانیے میں انٹرویوز، عورت کے مسائل خاص کر خواجہ سراؤں اور معزور افراد کی بڑھتی ہوئی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے لیے گئے۔ چونکہ حکام بالا کے غفلت کی وجہ سے جس تیزی سے کورونا پاکستان میں پھیل گیا وہ قابلِ افسوس ہے اگر وقت پر حفاظتی انتظامات کیے جاتے تو شاید اس وبا سے بچنے کے مواقعے زیادہ تھے بعد ازاں سمارٹ لاک ڈاؤن جیسے ڈرامے تو گویا اس بیماری کو مزید پھیلانے کا باعث بن گئے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ایک وبا ہے جس سے انسان کو ہمت و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے لیکن دوران علاج حفاظتی اقدامات ضروری ہیں تاکہ مریض کے ٹھیک ہونے کے ساتھ گھر و معاشرے کے دیگر لوگوں کو بچایا جاسکے۔

ہر عام و خاص کو کورونا چھو رہا ہے بعض لوگوں نے کورونا کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی، لیکن کافی تعداد میں لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔اس دورانیے میں معاشرے میں ایک طبقہ خواجہ سراؤں کا ہے جن کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں پہلی بات تو خواجہ سرا معاشرے میں اپنی شناخت کے مسئلے کا شکار ہیں جنہیں کمتر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ عورت اور مرد دونوں کے صفوں سے باہر تصور کیے جاتے ہیں گوکہ میڈیکلی طور پر مرد و عورت دونوں سے فرق رکھتے ہیں لیکن یہ قدرت کا کرشمہ ہے اس سے انکار اور اس طبقے کو نیچا کہنا احمقانہ عمل ہے کسی بھی انسان کی تذلیل کرنا سماجی رویوں کو آشکارکرتا ہے۔ خواجہ سرا بھی انسان ہیں اور شرعی، ملکی و بین الاقوامی سطح پر قانونی حقوق رکھتے ہیں جیساکہ مرد و عورت ملکی و بین الاقوامی سطح پر زندہ رہنے، و دیگر مراعات کا حق رکھتے ہیں۔

خواجہ سراؤں سے ملاقاتیں کرکے جب ان سے انٹرویوز کے ذریعے تاثرات لیے گئے تو اکثریت کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں ہمارے حقوق پامال کیے جاتے ہیں لیکن عالمی وبا کے پیش نظر حکومت سے توقع رکھ رہے تھے کہ ہمارے لیے خاص طور پر صحت کے حوالے سے سہولیات فراہم کرے گی لیکن افسوس سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ حکومتی نمائندے ہوں یا دیگر اعلیٰ افسران کا رویہ یا معاشرے کے دیگر لوگوں جیسا ہے۔ ایک طرف سے سماجی رویوں کی بناء پر ہمارا ڈیرے سے باہر نکلنا محال ہے لیکن دوسری طرف حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔


ان کا کہنا تھا ہمارے لیے ہر تحصیل، شہر،ضلع یا پھر صوبائی سطح پر ہسپتالوں میں وارڈز مختص کیے جائیں تاکہ ہم سماجی رویوں سے بچنے کے لیے بہتر علاج معالجے کے ساتھ ذہنی طور پر صحت مند رہ کر اس وبا کا مقابلہ کر سکیں۔وبا کے دنوں میں راشن تقسیم کرنے کے لیے ریلیف کیمپس کے منتظر رہتے تھے لیکن ہمارے ڈیروں کی طرف دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے”احساس پروگرام”میں بھی ہماری کمیونٹی کو نظر انداز کیا گیا۔دوسری جانب معزور افراد بھی کئی مشکلات کا شکار ہیں کئی معزور افراد کو عالمی وباء نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ان کے لیے ہسپتالوں میں کوئی خاص اقدام نہیں خاص کر معزور افراد کو واش روم کا مسئلہ درپیش آتا ہے۔کورونا کی حفاظتی تدابیر کے مطابق اس بیماری میں مبتلا انسان کو اردگرد ہاتھ لگانے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔

معزور افراد کا سہارا بننے والے حساس وارڈز میں جانے سے گھبراہٹ کا شکار ہیں ان کے پیارے اگر ٹھیک ہونے کی طرف گامزن ہیں تو وارڈز میں باقی لوگوں کی حالت تشویشناک ہوتی ہے جس سے وباء کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔بہتر ہوتا حفاظتی اقدامات کرکے معزور افراد کے لیے بھی الگ پرسکون صاف ستھرا سہولیات کے ساتھ وارڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا یا گھروں میں علاج معالجے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جاتے۔ خواجہ سراؤں اور معزور افراد کے ایسوسی ایشن کے سربراہان نے حکومت وقت سے گزارش کی ہے کہ ان کے لیے گرانٹ جاری کیا جائے اور ”احساس پروگرام”میں خاص طور پر اہمیت دیا جائے تاکہ کمتر اور اپاہج لوگ بھی معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح زندگی گزار سکیں، کورونا وائرس کی وجہ سے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہیں بارہا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لئے “احساس پروگرام”میں کوٹہ سسٹم مختص کیا جائے۔

اس رپورٹ میں بلوچستان بھر خاص کر ضلع جعفرآباد پر خاص توجہ دی گئی، انٹریوز زیادہ تر جعفرآباد کے مختلف علاقوں میں کیے گئے معز،ور افراد اور خواجہ سراؤں کی حکومت سے اپیل ہے کہ عالمی وبا کے پیشِ نظر ان کو سہولیات فراہم کیا جائے۔اسپتالوں میں وارڈز مختص کیا جائے۔ معزور افراد کی حکومت بلوچستان سے درخواست ہے کہ ان کے گھروں میں کورونا ڈاکٹرز و ٹیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔