|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2020

بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک ہفتے کے اندر پانچ افراد کی قتل نے خضدار والوں کو 2010 تا 2013 کی کچھ جھلک دکھلائی ہے، ماضی قریب و بعید کی ظلمتیں تو تاریخ کا حصہ رہیں گی تاہم مجھے یاد پڑتاہے کہ 2012 میں درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں خضدار میں ایک دن میں کئی کئی لاشیں گرتی رہیں، پھر زیادہ سے زیادہ لوگ اغواء ہوتے رہے، توتک و دیگر علاقوں سے کئی نامعلوم الاسم لوگوں کی ناقابل شناخت لاشیں ملیں۔اس وقت معصوم لوگوں کے بہیمانہ قتل نے صرف خضدار نہیں بلکہ پورے بلوچستان کو لرزہ براندام کردیاتھا۔

خضدار و بلوچستان کے لوگوں نے وہ وقت جیسے تیسے کرکے گزاردیا تاہم 2014 کے بعد پہلے کی نسبت بہت ہی کم ہفتہ دس دن میں کہیں اغواء تو کہیں قتل کے واقعات کی خبریں آتی رہیں مگر حالیہ سال کے وسط سے حالات نے شریف النفس عوام کیلئے اضطراب کا ماحول پیدا کرکے رکھ دیاہے، سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیساماحول پیداکیاجارہاہے؟ اب ایک ہفتے کے اندر ضلع خضدار میں پانچ افراد کے قتل سے ایک خوف کی فضا قائم ہوچکی ہے خوفناک واقعات کون کررہاہے؟ کیوں کررہاہے؟ بس جو بھی ہے ظلمت و شیطانیت عروج پر ہے۔

یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بدامنی و قتل و غارت گری کے واقعات میں ملوث قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے آج پھر عوام عدم تحفظ کاشکار ہیں۔ پرامن لوگوں کو تنگ کرنا، شہریوں کو اذیت دینا اور بیگناہ لوگوں کا قتل و غارت گری کا زہر مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑرہاہے۔ تربت ڈھنک واقعے میں ملک ناز کی قتل، دازن تمپ میں کلثوم بی بی، معصوم ناز بی بی، واشک میں پروفیسرعبدالخالق ریکی و اس کے دوست، پنجگور میں نوعمر فقیرجان، وڈھ لوپ میں دو افراد کاقتل، وڈھ بازار میں ہندو تاجر نانک رام چند، سنی چکو میں رفیق رند، زیدی میں شعیب کا قتل۔

اس طرح پے درپے قتل کے واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کوئی قاتل و رہزن ایک خطرناک ماحول بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ان واقعات کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ وحشیانہ واقعات چیخ چیخ کر کارپردازانِ حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ کیا انسان مخالف قاتل شیطانیت کا یہ رقصِ برہنہ اسی طرح جاری رہے گا؟ کیا بلوچستان کے امن کی اسی طرح اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی؟ کیا قتل و خون کے رسیا عناصر کو اسی طرح چھوٹ ملتی رہے گی کہ وہ جو چاہیں کریں۔

ماسوائے کسی ایک قوم پرست جماعت اور کچھ انسان دوست افرادکے کیاباقی سب کا مفادپرستی کی خاطر انسانیت کو شرمسار کرنے والے ایسے بہیمانہ واقعات پر بھی خاموشی کا سلسلہ جاری رہے گا؟ کیا ارباب حکومت و قوت کے ہونٹوں پر پڑا ہوا قفل کبھی نہیں کھلے گا؟ کیاان کا ضمیر اس قدر مردہ ہوچکا ہے کہ انسانیت کش واقعات انہیں جھنجھوڑ کر بیدار نہیں کر سکتے؟ ہم تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، دوسروں کو انسانیت کی تبلیغ اور اپنے آپ کو پوری دنیا میں انسان دوست پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔

کیا انہی واقعات کے جلو میں انسانیت کے علمبرداری کا دعویٰ ٹھیک ہے؟ کیا شدت پسندی، منافرت اور نسل کشی کا یہ جنون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس قسم کے دعوے کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لرزہ خیز واقعات کی روشنی میں ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انسانیت کے علمبردار ہونے یا انسانیت کے حق میں کچھ کہنے کا دعویٰ کریں۔ بلوچستان کے عوام میں نفرت کاشت کرنے والے یہ کوئی پہلے واقعات نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے، ہر واقعہ کے بعد کچھ آوازیں اٹھتی ہیں، کچھ مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے ہوتے ہیں اور قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے اور کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دینے کا ببانگ دہل اعلان اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھاجاتا ہے۔ یہ وعدے طاق نسیاں پر سجا دیے جاتے ہیں۔ قاتلوں اور حملہ آوروں کو ایک بار پھر کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے تاکہ وہ پھر اپنی شیطانیت کا کھل کرمظاہرہ کرسکیں۔ ماضی کے انسانیت سوز واقعات کیساتھ ساتھ ڈھنک کے ملک ناز کی قتل ہو یا تمپ کے کلثوم بی بی، پنجگور کے معصوم فقیرجان، واشک میں پروفیسر عبدالخالق اور اسکے دوست کا قتل۔

وڈھ کے نانک رام چند اور زیدی کے شعیب، سنی چکو کے رفیق رند کا قتل اور وڈھ لوپ سے دو افراد کی ہلاکت ہو یا سیاسی کارکنوں، صحافیوں و دیگر شعبوں سے منسلک شریف النفس انسانوں یا عام شہریوں کو قتل کی دھمکیاں دینے کے واقعات ہوں یا پھر اس قسم کے دوسرے واقعات۔ کیا مجرموں، قانون شکنوں، اغواکاروں، دھمکی دینے والوں، انتہاپسندوں اور قاتلوں کو کوئی ایسی عبرتناک سزا ملی ہے کہ انہیں دیکھ کر دوسرے سبق حاصل کریں اور وہ خود اس راہ پر چلنے سے باز آئیں؟ کیا ایسے واقعات میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟

کیا حکومتوں نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی ہے؟ قطعاً نہیں اور بالکل بھی نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس بعض معاملات میں قاتلوں اور اغواکاروں کو مراعات عطاکرکے عزت افزائی کی جاتی ہے۔ ایسی صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کی عوام کے خلاف سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں کو حکومت اور انتظامیہ کی بظاہر پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر واقعی ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے؟ ہو نہ ہو، پر اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر یہ رائے قائم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان سماج اور امن دشمن عناصر کو درپردہ ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔

اور ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ تم جو چاہو کرو تمھارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔الآخرو بالآخر!بلوچستان بالخصوص ضلع خضدار میں کچھ دن سے پے درپے جو واقعات رونما ہورہے ہیں ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،ایک دفعہ پھر بدامنی کی جوفضاء پھیلائی جارہی ہے اس سے یہاں کے عوام میں ایک بے یقینی، بے چینی اور خوف پیدا ہوا ہے یہاں کے عوام امن و سکون کے خواہاں ہیں اس سے پہلے کہ کوئی اور ناخوشگوار واقعہ پیش آئے مجرمانہ واقعات میں ملوث عناصر و امن کو سبوتاژ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

حکام بالا سے عرض ہے کہ بلوچستان کے عوام کو امن و سکون دو، قانون کی بالادستی قائم کرو، یہاں کے عوام کو عزت دو، معصوم لوگوں کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دو۔ ان سب کے ساتھ ساتھ موقعے کی مناسبت سے مقتدر قوتوں سے عرض ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین پر رحم کرکے لاپتہ افراد کو منظرعام پر لائیں، ان پر قانونی طریقے سے عدالتوں میں کیسز چلوائیں۔ اگر وہ کوئی غیرآئینی و غیرقانونی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے جرم کے مطابق انہیں سزا ملنے پر لواحقین کو کوئی گلہ شکوہ نہیں ہوگا بس انہیں منظرعام پر لایاجائے۔۔