بلوچستان حکومت نے صوبے میں معدنیات کے شعبے کو وسعت دینے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیئے مائنز ایکسپلوریشن کمپنی کے قیام کا اعلان کیا ہے اور صوبائی بجٹ میں اس کے لیئے خطیر رقم بھی مختص کردی گئی ہے۔۔۔۔۔حکومتی اعلان کے مطابق ماہرین کی مدد سے مائننگ سیکٹر کو فروغ دیاجائیگا۔۔بلوچستان معدنی ذخائر سے مالا مال صوبہ ہے اور یہاں پلاٹینیم گروپ میٹلز (PGM) اور ریئر ارتھ منرلز یا Precious Metals سمیت ہر قسم کے قیمتی معدنیات کے ذخائر موجودہونے کے واضح امکانات ہیں۔۔
صوبے میں اس وقت نجی طور پر یا حکومتی اداروں کے اشتراک سے چند اقسام کی معدنیات پرمائننگ کی جارہی ہے۔یہ معدنیات وہی ہیں جن کے حوالے سے قیام پاکستان سے قبل برٹش حکومت نے تحقیق کی تھی۔انگریز کے جانے کے بعد سے اب تک معدنیات پر نہ ہونے کے برابرتحقیق ہوئی ہے حتیٰ کہ کوئی قابل ذکر تحقیقی ادارہ بھی وجود نہیں رکھتا۔۔۔۔۔بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیئے کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں اور بین الاقوامی سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کے خواہش مند بھی ہیں لیکن سرمایہ لانے میں ناکامی کی اصل اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ صوبائی حکومت اور محکمہ مائنز اینڈ منرلز کے پاس معدنیات کے حوالے سے کوئی مستند ڈیٹا یا اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔
معدنیات کے شعبے کے فروغ کے لیئے سالانہ بنیاد پر سرمایہ کاری کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ کیئے جاتے ہیں۔۔۔۔لیکن جب تک حکومت کے پاس معدنیات کے ذخائر کی موجودگی کے حوالے سے مستند ڈیٹا موجود نہیں ہوگا ایسی صورت میں سرمایہ کاروں کو کس طرح آمادہ اور مطمئن کیا جاسکتا ہے؟بلوچستان میں معدنی ذخائر وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر معدنیات کے شعبے کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیئے روزگار کے دروازے بھی کھولے جاسکتے ہیں لیکن اس کے لیئے سب سے پہلے تحقیق کے عمل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔تحقیق کے بغیر وسیع پیمانے پرسرمایہ کاری کی امید رکھنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
تحقیق کے عمل میں ناکامی کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو حکومتی غیر سنجیدگی کے ساتھ معدنیات کے شعبے سے وابستہ ماہرین کی نا اہلی,جدید ٹیکنالوجی اور مشینری سے لاعلمی سر فہرست ہیں۔۔۔۔۔جن ماہرین کو لاکھوں روپے کی تنخواہ اور دیگر مراعات سے نوازا جارہا ہے در اصل یہ تھیوری بیسڈ ماہرین ہیں۔ عملی طور پر یہ لوگ معدنیات کی کھوج لگانے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ ماہرین معدنیات کی تلاش کے لیئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف ہیں۔۔دنیا کے بہت سے ممالک میں مقامی آبادی کو وسائل اور قرضے فراہم کرکے معدنیات اور جواہرات کی مائننگ کے ذریعے اربوں روپے کمائے جارہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن پاکستان میں حکومت,اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کی جانب سے مقامی مائنرز کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
عمران خان کی موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کومستحکم کرنے کے لئے گائے,بھینس اور مرغی و انڈوں کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔۔۔اور اطلاعات کے مطابق پنجاب و خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں لاکھوں افراد کو رکشے,بھینس اور مرغیاں فراہم کردی گئیں ہیں۔۔۔جبکہ ایک اور منصوبے کے تحت انہی دونوں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ کے قریب نوجوانوں کو روزگار کی مقصد کے تحت دس دس لاکھ روپے بطور قرض فراہم کیئے گئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اسی طرح کے کسی منصوبے کے ذریعے بلوچستان میں مائننگ کے شعبے کو فروغ نہیں دیا جاسکتا؟ کیا اسٹیٹ بینک اور نجی بینکوں کے ذریعے بلوچستان کے نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کے لیئے اقدامات نہیں کیئے جاسکتے۔۔۔؟
مائنز و منرلز کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے اور صوبے ہی اپنے وسائل خرچ کرکے اس شعبہ کو ترقی دینے کے ذمہ دار ہیں۔۔۔۔اگر معدنی وسائل پر صوبوں کا حق ہے تو پھر صوبوں کو اختیار بھی ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی شرائط پر سرمایہ کاروں سے معاہدات کریں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبوں کے وسائل خرچ ہونے کے باوجود معاہدات طے کرنے کا اختیار وفاق کے پاس ہے۔جس سے بے چینی پیدا ہوتی ہے جو مقامی آبادی کی طرف سے رکاوٹوں کے صورت میں سامنے آتا ہے۔اس حوالے سے صوبوں کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔۔چونکہ بلوچستان حکومت کے وسائل انتہائی محدود ہیں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مائننگ سیکٹر پر صحیح طرح سے توجہ نہیں دی جاسکتی۔
اس کے لیئے ایک تجویز یہ ہے کہ محکمہ زراعت کی بجٹ کو محدود کرکے یہ پیسے اور محکمہ زراعت کے زیر استعمال مشینری اور گاڑیاں محکمہ مائنز کو منتقل کردیئے جائیں۔۔۔۔بلوچستان میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور زیادہ عرصے تک زراعت کے شعبے کے ذریعے لوگوں کو برسر روزگار نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔۔بلوچستان چونکہ بنیادی طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے اس لیئے یہاں پانی اس حد تک موجود ہے کہ مقامی آبادی اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے کاشت کاری کرسکتی ہے۔۔۔۔۔زراعت کے لیئے جس طرح سے زیر زمین پانی کو زیر استعمال لایا جارہاہے اس سے چند ہی سالوں میں بلوچستان بنجر کا منظر پیش کرسکتا ہے۔۔۔۔چونکہ زراعت کے علاوہ بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع موجود نہیں ہیں۔
تو زیر زمین پانی کے ذریعے کاشت کاری ان کی مجبوری ہے۔۔۔اگر زراعت کی بجٹ کو کم کرکے یہ پیسے مائنگ کے شعبے میں لگادیئے جائیں تو لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے اور صوبے کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیاجاسکتا ہے۔۔۔۔۔اگر مشینری اور جدید ٹیکنالوجی کو زیر استعمال لایا جائے تو سالانہ بنیادوں پر پانچ سو کے قریب نئی مائنزشروع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔قدرتی وسائل کی بات کرتے ہوئے ہم اکثر Gemstone یعنی جواہرات کو بھول جاتے ہیں۔۔۔حالانکہ بلوچستان,گلگت بلتستان, شمالی علاقہ جات اور خیبر پختونخواہ میں Gemstone کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔۔۔۔کشمیری نیلم اور سوات کے زمرد کی پوری دنیا میں ایک خاص قیمت اور اہمیت ہے۔۔۔
بلوچستان میں بھی Precious اور سیمی Precious جواہرات کی کمی نہیں۔۔۔۔افغانستان,ایران,انڈیا,تھائی لینڈ, چین, برما,سری لنکا,ویت نام,امریکہ,برازیل سمیت متعدد افریقی ممالک میں لاکھوں افراد جواہرات کی مائننگ اور خریدو فروخت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ جو سالانہ اربوں ڈالرز کا منافع اپنے ممالک لارہے ہیں,جبکہ پاکستان میں جواہرات کا شعبہ مائننگ اور خریدو فروخت کے حوالے سے حکومتی سرپرستی اور تعاون سے مکمل طور پرمحروم ہے۔۔۔۔بلوچستان میں اگر مقامی مائن اونرز کی مدد کی جائے تو Gemstone کے سینکڑوں مائنز دریافت کیئے جاسکتے ہیں۔جس سے اربوں روپے کی آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔