گوادر ماسٹر پلان میں گوادر کے موجودہ شہر جہاں ماہی گیر بستے ہیں، اس کی ترقی کے لئے گوادر ماسٹر پلان میں کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوگا۔ اس وقت گوادر شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ مقامی افراد تعلیم اور صحت جیسی اہم سہولیات سے محروم ہیں۔گوادر میں دیمی زر نامی ایک قدرتی گودی ہے جس کو ماہی گیر صدیوں سے بندرگاہ کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ یہ بلوچستان کی واحد قدرتی گودی (بندرگاہ) ہے، جہاں سال کے بارہ مہینے ماہی گیری کر سکتے ہیں۔ جبکہ پسنی، جیوانی اور دیگر علاقوں میں جون سے لیکر اگست تک ماہی گیری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ان کے پاس اس طرح کی قدرتی گودی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس قدرتی گودی کے ساحل پر ایکسپریس وے تعمیر کیا جارہا ہے جس سے ان کو ماہی گیری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیونکہ ساحل سے سمندر تک آنے جانے کا راستہ رک جائیگا۔ اس منصوبے کے خلاف ماہی گیروں نے سخت احتجاج کیا۔ مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔ لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔
ایک بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی خطے میں میگا پروجیکٹ کا عمل شروع ہوگا اس پروجیکٹ میں مقامی افراد کے فلاح و بہبود سمیت ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ تاکہ مقامی افراد زیادہ سے زیادہ میگاپروجیکٹ کے فوائد سے مستفید ہوسکیں۔ بدقسمتی سے گوادر میں مقامی افراد کے لئے ایسا کوئی پلان موجود نہیں ہے۔
حکومتی پالیسیوں میں بلوچ نوجوانوں کو اہل بنانے کابھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو پورٹ اینڈ شپنگ صنعت میں تجارت سے متعلق ایجوکیشن دے۔ ایجوکیشن کے بعد ان کو سود سے پاک بینک قرضے دئیے جاہیں، تاکہ وہ پورٹ اینڈ شپینگ کی صنعت میں تجارت کے قابل ہوسکیں۔ مثال کے طورپر وہ چائنا، تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فشنگ نیٹ (جال) کا کاروبار کرنے کے قابل ہوسکیں کیونکہ بلوچستان لوکل مارکیٹ میں فشنگ نیٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ علاوہ ازیں کشتی اور لانچوں کے انجن اور دیگر آلات بھی درآمد کرسکتے ہیں۔بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 11اقسام کی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جن میں آئرن، کاپر، کرومائیٹ، کوئلہ، ماربل اور دیگر معدنیات شامل ہیں۔ ٹریننگ اور قرضے حاصل کرنے کے بعد بلوچ نوجوان ان معدنیات کو پورٹ کے ذریعے دیگر ممالک برآمد کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ورنہ یہ پورٹ مقامی افراد کے لئے بے سود ہے۔ اور نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے ریاست اپنا کردار ادا کرسکتی ہے جس سے مقامی آبادی میں خوشحالی آسکتی ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔لیکن حکومت جان بوجھ کر اس طرح کا پیکج دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ انہیں مقامی افراد کی سرزمین اور معدنیات عزیز ہیں اور مقامی افراد کے مفادات اور مستقبل عزیز نہیں۔ اس طرح کی پالیسیوں سے مقامی لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گوادر کی ترقی ان کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ باہر سے آنے والوں کے لئے یہ منصوبے بنائے جارہے ہیں۔حکومت قانون سازی کے ذریعے مقامی آبادی کو اقلیت میں جانے سے بچا سکتی ہے۔ قانون سازی کرکے مقامی افراد سے ان کی اراضی خریدنے کا سلسلہ روکا جائے۔ ان کی حق ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی اراضی کو کاروبار یا تجارت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مقامی افراد کو کاروبار میں شراکت دار بنایا جائے۔ گوادر میں آنے والے سرمایہ کاروں اور مقامی افراد کے درمیان جوائنٹ وینچر پالیسی کو متعارف کروایا جائے۔ جس طرح دنیا کے بعض ممالک میں ہوتا ہے۔ غیر مقامی افراد کو قومی شناختی کارڈز بنانے پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہئے۔ اور ووٹنگ کا حق بھی نہیں دینا چاہئے۔ تاکہ مقامی افراد اقلیت میں تبدیل نہ ہوسکیں۔
ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جارہی ہے جومقامی افراد کے مفاد میں ہو۔ جو بھی منصوبہ بن رہا ہے وہ سب باہر سے آنے والے امیروں اور ارب پتی سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے بن رہا ہے۔ ان کے لئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پورٹ، ہاؤسنگ اسکیمیں، کشادہ سڑکیں، اسپورٹس کمپلیکس اور بڑے بڑے اسپتال وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔پسنی میں واقع، شادی کور ڈیم سے پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے پر وفاقی حکومت سے کروڑوں روپے جاری ہوچکے ہیں۔ جبکہ پسنی شہر میں پانی کی قلت پہلے سے موجود ہے۔ ان کا پانی چوری کرکے غیر مقامی افراد کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں ضلع کیچ کے علاقے دشت میں واقع، میرانی ڈیم سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک پائپ لائن بچھانے پر کروڑوں روپے کی لاگت آئیگی۔ جبکہ میرانی ڈیم کے پانی پر سب سے پہلے حق ضلع کیچ کے لوگوں کا ہے نہ کہ گوادر میں آنے والے غیر مقامی افراد کا۔ مستقبل میں ضلع کیچ میں شدید پانی کی قلت پیدا ہوگی اس قلت کو دور کرنے کے لئے آج سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔مشرف دور حکومت میں جب گوادر پورٹ بن رہا تھا تو بلوچستان کے سیاسی حلقوں کا مطالبہ تھا کہ گوادر پورٹ کو وفاق سے صوبے کے حوالے کیا جائے۔ اور گوادر پورٹ میں مقامی افراد کی بھرتی کی جائے۔ گوادر کے لوگوں کے لئے پانی، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کی فراہمی، وغیرہ وغیرہ جیسے مطالبات تھے۔ اب بات ان مطالبات سے آگے نکل چکی ہے۔ اب بلوچ کا مسئلہ قومی تشخص کا ہے۔ ان کی قومی شناخت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بسول، کلمت، پسنی، سر، گوادر، جیوانی، گنز اور پشکان تک طویل ساحلی پٹی پر دو سے تین کروڑ غیر مقامی افراد کو آباد کیا جارہا ہے۔ جبکہ اورماڑہ شہر پہلے ہی سے ممنوعہ علاقہ بن چکا ہے۔
اس وقت پورے بلوچستان کی مقامی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجائیگی اور ان کے قومی تشخص کا خاتمہ ہوگا۔ان رہائشی اسکیموں کے ذریعے مستقبل میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ، گورنر سمیت دیگر کابینہ غیر مقامی افراد پرمشتمل ہوگا۔ ریاستی پالیسیاں بلوچ قوم کے لئے موت ثابت ہونگی۔ ایک اور خفیہ پلان بھی زیر غور ہے جس میں گوادر کو بلوچستان کا دارالحکومت بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، اسمبلی بلڈنگ، کابینہ کے لئے سیکریٹریٹ بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس پلان پر عملدرآمد کے بعد آپ کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ اور گورنر تو ملے گا مگر وہ بلوچی گھیر والی شلوار کے بجائے دھوتی پہنے ہوئے ملے گا۔ اس طرح بلوچستان میں حمل ماہ گنج کا قصہ سنانے کے بجائے ہیر رانجھا کا قصہ سنایا جائیگا۔
(ختم شد)
بلوچ قومی تشخص خطرے میں (قسط 2)
وقتِ اشاعت : July 29 – 2020