گزشتہ دنوں سینیٹ آف پاکستان(ایوان بالا) نے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کا بل متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ منظور شدہ آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں بلوچستان کی آبادی میں 1کروڑ 20 لاکھ کااضافہ ہوا ہے لیکن بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ نہیں کیاگیا۔ آئینی بل میں اراکین سینٹ نے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں 63 سے بڑھاکر 80 کی جائیں۔ جس پر سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا، آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں 71 ووٹ آئے۔ یہ بل سینیٹر سجاد طوری، عثمان خان کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہزیب خان درانی، سرفراز بگٹی، شفیق ترین، میرکبیر جان محمد شہی، سردار یعقوب خان ناصر، کہدہ بابر اور بلوچستان کے دیگر سینیٹرزکی جانب سے پیش کیاگیا تھا۔
سیاسی پارٹیوں کی جانب سے سینیٹ میں بلوچستان کی نشستوں کو بڑھانے کے بل کی منظوری کو سراہا جا رہا ہے سیاسی حلقے اسے انتہائی خوش آئند بات قرار دے رہے ہیں سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی بھی منتشر اور دور دور بکھری ہوئی ہے جہاں پر مسائل کو حل کرنے کیلئے وسیع ترحلقوں کیلئے محض ایک دو ایم پیز و وزیر بہتر انداز میں کام نہیں کرسکتے اور اسی وجہ سے ہی صوبے کے طول عرض پر مشتمل انتخابی حلقے جدید ترقی اور بنیادی انفراسٹراکچر کے حوالے سے خرچ ہونے والے فنڈز آج تک کارآمد ثابت نہیں ہوئے، اسی لئے بلوچستان کی اکثریتی آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ چونکہ ہر علاقہ وقصبہ اراکین اسمبلی کوملنے والے فنڈز سے ڈویلپ نہیں ہو سکتے،موجودہ سیٹیں بھی ناکافی ہیں مگرکچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
جبکہ دوسری جانب ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کوسمجھنا چاہئے کہ بلوچستان کو پسماندگی سے نکالنے کیلئے اہم بنیادی مسائل کو سمجھنا ضروری ہے خاص کر نشستوں اور حلقوں کے وسیع ترہونے کے حوالے سے جائزہ لینا چاہئے کہ کس طرح سے مشکلات درپیش آتی ہیں کہ بلوچستان کا ہرایک حلقہ وسیع تر رقبوں پر مشتمل ہوتا ہے،سینکڑوں کلومیٹر فاصلوں کے بعد دوسرا حلقہ آتا ہے، آج بھی بلوچستان کا دورہ کیاجائے تو براستہ سڑک اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقوں کے اندر بجلی، پانی، ہسپتال، تعلیمی اداروں سمیت دیگر بنیادی و ضروری سہولیات موجود ہی نہیں جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ کا تصور تک بعض علاقوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کو 1972 میں صوبے کا اسٹیس ملنے کے بعد متعدد مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور اب موجودہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہے بلوچستان کا مسئلہ صوبائی نشستوں میں اضافہ سے نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں مناسب نمائندگی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں جہاں پورے بلوچستان کے اراکین کی تعداد 22 ہو وہاں کس طرح وفاق میں بلوچستان کی بہتر نمائندگی ہو سکتی ہے۔وفاق کی ناانصافیوں ترقیاتی منصوبوں میں اولیت نہ دینے اور صوبے کو ہر دور اور ہر شعبے میں نظر انداز کرنے کے باعث ہی بلوچستان کو پسماندگی اور عدم ترقی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے بلوچستان کے عوام وفاق کی ناانصافیوں کا تسلسل سے اظہار کرتے رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں صوبے کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے جبکہ دوسری جانب سونے پر سہاگہ یہ کہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے قومی اسمبلی کے اراکین نے کبھی بھی قومی اسمبلی میں صوبے کے مسائل پر لب کشائی کرنے کی جسارت یا کوشش ہی نہیں کی ہے اور نہ ہی اسمبلی فلور پر بلوچستان کو نظرانداز کرنے پر کبھی بات یا قرارداد لانے کی کوشش کی ہے۔ کیا وہ بلوچستان سے منتخب نہیں ہوئے ہیں کیا وہ اپنے صوبے کی نمائندگی کا حق بہتر انداز میں ادا کر رہے ہیں۔تاہم اسمبلی کے فلور پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر مینگل کے علاوہ کوئی ممبر بلوچستانیوں کی پسماندگی،بودو باش، عدم ترقی،محرومیوں پر کبھی بھی بات کرنے کی جرات نہیں کر سکے ہیں واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام،بی این پی،آزاد اراکین، پی ٹی آئی کی نمائندگی یا اراکین موجود ہیں جبکہ دوسری جانب سینٹ میں نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی،اے این پی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کافی متحرک کردار ادا کر رہے ہیں اور بلوچستان کے ایشوز اور مشکلات کو اجاگر کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
آپ صوبے کے منتخب اراکین اسمبلی کے اس عمل سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچستان سے منتخب اراکین قومی اسمبلی صوبے سے کتنے مخلص اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ کتنے سنجیدہ ہیں اراکین قومی اسمبلی کی غیر سنجیدگی اور وفاق کی عدم توجہی ہی بلوچستان کی پسماندگی کی اصل وجہ ہے بلوچستان کو ہر دور میں وفاقی حکومتوں کی جانب سے ناانصافیوں کے تسلسل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس سلسلے میں کسی بھی مرکزی سیاسی جماعت یا بلوچستان کی قوم پرست سیاسی پارٹیوں نے صوبے کو نظر انداز کرنے پر مشترکہ موقف قومی اسمبلی میں تاحال اپنایا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مشترکہ احتجاج کیا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی کے ظلم و زیادتیوں کی ایک معمولی جھلک کااندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ بلوچستان کے لوکل سرٹیفیکٹس کی اسلام آباد میں فروخت جاری ہے کسی بااثر شخص کو بلوچستان کے کسی بھی ضلع کا لوکل سرٹیفیکٹ بآسانی مل سکتا ہے بلکہ تسلسل سے مل رہے ہیں اور ان جعلی لوکل سرٹیفیکٹس کی بدولت مرکزی حکومت میں ہزاروں نان بلوچستانی ملازمت کر رہے ہیں اور صوبے کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگاری کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں یا پھر ملک دشمن عناصر انہیں بہلا کر اینٹی اسٹیٹ سرگرمیوں میں ملوث کرکے صوبے میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کرانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ریاست اپنی اکائیوں میں اس طرح کی تفریق کرنے کا حق رکھ سکتی ہے؟ کیا اس طرح کی ناانصافیوں سے ریاست کی اکائی پسماندگی اور محرومیوں کا ہمیشہ کے لیے شکار رہے گا؟ لیکن اس کے باوجود ریاست اس اہمیت کے حامل صوبہ کو جہاں کا کوسٹل ایریا امریکہ بھارت اور اسرائیل کی نظروں میں سوئی کی طرح چھبتا ہو, دنیا کی نظریں سی پیک پر ہوں,گوادر پورٹ کی اہمیت سے دبئی سمیت دیگر ممالک پریشان ہوں سینڈک اور ریکوڈک سے ہی بلوچستان کے بنجر اور صحرا گل و گلزار ہو سکتے ہیں، پورا بلوچستان کیا پورا ملک بلوچستان کے ان قدرتی ذخائر اور وسائل سے مالا مال، جدید ترقی کی تمام منازل طے کر سکتا ہے اوراس طرح سے ہی ہم ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ساتھ محکوم و مجبور عوام کا معیار زندگی بھی تبدیل ہو سکتی ہے وہاں بلوچستانی قوم پسماندگی سے نکل کر جدید ترقی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں لیکن افسوس کہ آج تک نہ تو بلوچستان کے دکھ درد کو محسوس کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی علاج کیلئے کوئی حکمت عملی یا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے،جب تک ہمارے ارباب اختیار اور طاقتور طبقات بلوچستان کے مسائل،عدم ترقی پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تب تک عوام اسی طرح خوار اور پسماندگی کو اپنا مقدر سمجھیں گے اور یہ پسماندگی روز قیامت تک جاری رہے گی۔ لیکن اگر ہم بلوچستان کے زمینی وجغرافیائی حالات کا جائزہ لیں تو بلوچستان ہی پاکستان اور ایشیاء کیلئے گیم چینجر ہے بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی سے مشروط ہے اگر پاکستان کو ترقی دلانا مقصود ہے تو بلوچستان کو اولیت دینا ہوگا بلوچستان کے بنیادی مسائل کو حل کرکے یہاں معیاری اسپتال، مثالی نظام تعلیم،بہترین روڈ انفراسٹرکچر سمیت جدید سہولہات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔کیا بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے صوبے میں مثالی ترقی کی کوئی مثال موجود ہے 1972 سے لیکر آج تک آپ کوکوئی ایسی مثال نہیں ملے گی کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں سے صوبے میں ترقیاتی انقلاب برپا ہوا ہو۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کی اہمیت یا افادیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی کسی بھی متفقہ قرارداد پر وفاق نے کبھی بھی من و عن عمل نہ کیا۔ میرے صحافتی کیرئیر میں ایسی کوئی مثال نہیں جہاں بلوچستان اسمبلی نے کوئی مشترکہ قرار داد منظور کی ہوئی ہو اس پر وفاق نے فورا من و عن عمل کیا ہو۔ بلوچستان کی ترقی قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ سے ہی ممکن ہے بلوچستان کے 33 اضلاع ہیں اور قومی اسمبلی کی ہر ضلع کیلئے الگ الگ نشستیں مختص کی جائیں اور ساتھ ہی مخصوص نشستیں دی جائیں تاکہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کے 50 کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں ہوں اور بلوچستان کی قومی اسمبلی میں مناسب نمائندگی ہو۔ قومی اسمبلی میں صوبے کی پوری نمائندگی سے ہی مرکزی محکموں میں بلوچستان کو اہمیت اور اولیت مل سکے گی۔ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ محض عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہو سکتا ہے اور یہ نشستیں کرپشن میں مزید اضافہ ہی کا موجب بنیں گے جب موجودہ اراکین اسمبلی ساٹھ ساٹھ کروڑ روپوں میں اپنے حلقوں کی تقدیر نہیں بدل سکتے تو وہاں 80 اراکین صوبائی اسمبلی کون سا انقلاب برپا کر سکیں گے۔ بلوچستان میں آج بھی ہر رکن اسمبلی کو ایک ارب تک ترقیاتی منصوبوں کے منصوبے ملے ہیں اگر ان ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے اور ان پر واقعی کام کیا جائے تو بلوچستان میں ترقی کا تیز ترین عمل شروع ہو سکتا ہے بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں ترقیاتی منصوبے زمین کے بجائے کاغذوں میں ہی مکمل ہوتے ہیں جہاں نہ تو چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی سزا و جزا کا کوئی میکنزم ہے نہ تو صوبے میں نیب کی دلچسپی ہے اور نہ ہی قومی تحقیقاتی اداروں کی ان منصوبوں پر توجہ یا چیکنگ کا کوئی نظام وضع ہے۔ موثر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث صوبے میں سالانہ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں سے نہ تو بلوچستان کی تقدیر بدل رہی ہے اور نہ ہی عوام اس منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں تاہم ان ترقیاتی منصوبوں کے عیوض بلوچستان کے ان 65 اراکین اسمبلی کی حقیقی معنوں میں تقدیر بدل رہی ہے ان کے اثاثوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان کی پسماندگی, عدم ترقی,محرومیوں, عوامی بدحالی کا خاتمہ صوبائی نشستوں میں اضافہ نہیں بلکہ عوام اور صوبے کو مزید پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا بلوچستان کی مثالی اور جدید ترقی کاحل صرف اور صرف قومی اسمبلی میں بلوچستان کو زیادہ اور متناسب نمائندگی دینے سے ہی ممکن ہے۔ سینٹ کی طرح قانون سازی کرکے تمام اکائیوں کی مناسب نمائندگی کا حق ہی بلوچستان کے زخموں کا علاج ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاق, اسٹبلیشمنٹ سمیت دیگر تمام اداروں کو ایک لائحہ عمل مرتب کرکے بلوچستان کو اولیت دے، بلوچستان ہی سے پاکستان کی ترقی اور بقاء کا راز وابستہ ہے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ صوبے کے بدحال اور پسماندہ عوام کے حقوق ہڑپ کرنے اور حسب سابق کرپشن کا بازار گرم کرنے کا ہی ایک عظیم منصوبہ ہے اب اگر بلوچستان پر حقیقی معنوں میں توجہ نہ دی گئی تو پھر بلوچستان قیامت تک نہ تو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا اور نہ ہی عوام کی معیار زندگی میں کوئی تبدیلی یا انقلاب برپا ہوگا۔
کیا صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے بلوچستان ترقی سے ہمکنار ہو سکے گا؟
وقتِ اشاعت : July 29 – 2020