کوئٹہ: پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی صدر وسابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہاہے کہ ملکی معاملات کوچلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے قرضے پر قرضے لئے جارہے ہیں پیمنٹ طرز پر قرضوں سے ملک مزید مالی بحران سے دوچار ہوگا،اگر موجودہ حالات میں چین اور سعودی عرب کی جانب سے پیسے نہ ملتے تو ملک ڈیپالٹ میں چلاجاتاملکی حالات کاتقاضاہے کہ حکومت،اپوزیشن اور اسیٹبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر نیا عمرانی معاہدہ کریں۔
تاکہ ملکی استحکام کو دوام ملے اور غربت کی چکی میں پیسے ہوئے عوام کو ریلیف مل سکیں نیب قانون سازی سے متعلق ان کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی سیاسی جماعتوں میں حالات کا سامنا کرنے کی جرات نہیں ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے وفد سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ شیخ جعفرمندوخیل نے کہاکہ نیب قانون سازی سے متعلق ان کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی سیاسی جماعتوں میں حالات کا سامنا کرنے کی جرات نہیں ہے۔
اپوزیشن نے اپنے لئے الگ راستہ بنایاہے جبکہ حکومت تو پہلے سے ہی ان کی گود میں ہے،موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کوپہنچ رہاہے،ملک چلانے کیلئے قرضے پر قرضے لئے جارہے ہیں جبکہ غربت کی چکی میں صرف غریب پیس رہاہے نہ تو سرکاری آفیسر اس سے متاثر ہے نہ سیاست دان اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ صورتحال کنٹرول سے باہر ہوا تو ڈالر 500تک پہنچ جائے گا،بدقسمتی سے پیمنٹ کے کاروبار میں ہم دھنستے جارہے ہیں۔
ایک روپے قرض کیلئے 2روپے ادا کرناپڑرہاہے،حالات ایسے ہیں جیسے اگر کوئی ایک گاڑی خریدتا ہے تو اس کی رقم کی ادائیگی کیلئے دوسری گاڑی خریدتاہے اور پھر تیسری گاڑی خریدتاہے اسی طرح بوجھ بڑھتاجارہاہے،ملک کی آدھے سے زیادہ بجٹ کو اندرونی وبیرونی قرضوں سے پورا کیاجارہاہے،حکمران نہ ہی داخلہ پالیسی میں خود مختار ہے اور نہ ہی خارجہ پالیسی میں،اگر موجودہ حالات میں چین اور سعودی عرب کی جانب سے پیسے نہ ملتے تو ملک ڈیپالٹ میں چلاجاتا یہ تو کورونا کی وجہ سے حالات تھوڑے بہت نارمل ہوئے ہیں۔
کب تک قدرتی آفات کی دعائیں مانگتے رہیں گے کہ کوئی آفت آئے اور ہمیں قرضوں میں ریلیف ملیں،اس طرح کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتے گئے تو پھر نہ سرکاری ملازم کیلئے پیسے ہوگا اور نہ ہی کسی سیاست دان ودیگر کیلئے ملک میں کی 70فیصد آبادی غربت کی لکھیر کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جبکہ حکمران قرضے پر قرضے لے رہاہے،ملکی معاملات چلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
قرضوں سے ملک کو نہیں چلایاجاسکتاکیونکہ قرضہ اگر ایک روپیہ لیاہے تو اس کی بجائے دو روپے ادا کرنے ہوتے ہیں مگربدقسمتی سے ہرنئی حکومت اور اسیٹلبشمنٹ نئے نئے معاشی تجربات کررہے ہیں ترکی کا مثال ہمارے سامنے ہیں ہم سے زیادہ بدحالی کے شکار تھے لیکن انہوں نے ملک چلانے کیلئے موثر پالیسی تشکیل دی اور آج وہ بہترین گروتھ کے ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔
مرکز،صوبوں اور دیگر کے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرناہوگا تاکہ معیشت کے پہیہ کوآگے بڑھایاجاسکے،ملکی حالات کاتقاضاہے کہ حکومت،اپوزیشن اور اسیٹبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر نیا عمرانی معاہدہ کریں تاکہ ملکی استحکام کو دوام ملے اور غربت کی چکی میں پیسے ہوئے عوام کو ریلیف مل سکیں۔