انسان زمانہ قدیم سے لے کر دور حاضر کی تیز رفتار زندگی میں قدم رکھنے تک مختلف مراحل طے کرتے ہوئے کئی دشواریاں، سختیاں اور تکلیف سے گزرتے ہوئے جدت پسندی کی منزل تک پہنچا ہے۔ مگر جب ہم ماضی بعید سے دور جدید کا تجزیہ کریں تو ایک بات واضح اور صاف نظر آتی ہے کہ اس تمام سفر میں عورت کو برابری کی زندگی میں یکساں مواقع نہ ملنے کے سبب ایک تفریق کی لکیر جو ہم انسانوں نے کھینچ لی ہے وہ لکیر جو مردوں نے کھینچ کر عورت کو صنف نازک کا نام دیا تو کسی نے اشتہار کے ساتھ بکنے والی شے سمجھ کر شو کیس میں بے جان اشیاء کی مانند سجادیا۔
بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورت کو گو کہ یکساں مواقع تو دئیے گئے مگر وہ یکساں مواقع ایک طویل جہدوجد اور ایک سیاسی سلوگن اور تحریک کے بعد بھی وہ آزادی نہیں مل سکی جسکا ترقی یافتہ ممالک ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں چاہے وہ سماجی برابری کا نعرہ ہو یا پھر کسی بھی زندگی کے شعبے میں برابری کا دعویٰ۔اب اگر پاکستان کی بات کریں تو عورت کا سیاسی عمل میں کردار ضرور رہا ہے مگر وہ کردار گرد سے آلودہ ہے جو صاف نظر ہی نہیں آتی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ آج تک کوئی عورت اس بات کا دعویٰ یا غرور نہیں کرسکتی کہ ملکی ترقی میں فیصلہ ساز کردار ادا کرنے میں اسکی نمایاں ہاتھ ہے۔
اسلام آباد کی آنکھیں خیرہ کرنے والی روشنی سے دور میں اپنے صوبہ بلوچستان میں عورت کی سیاسی شراکت داری پر اگر روشنی ڈالوں تو ایک قبائلی معاشرہ جہاں پدر شاہی نظام کا ایک مضبوط ڈھانچہ موجود ہے۔مجھے یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں ہے جب ایک سردار قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر پانچ خواتین کو بلوچستان کے شہر نصیر آباد میں زندہ درگور کرنے کو بلوچ روایت قرار دیتا ہے اور اس کی اس بات پر تالیاں بجھتی ہیں کھڑے ہوکر اس سردار کی بہادری اور صاف گوئی پر داد دی جاتی ہے۔ جبکہ ایک اور نواب قومی چینل پر گورنر ہوتے ہوئے بھی ایک خاتون اینکر جب متعلقہ دلخراش واقع پر سوال اٹھاتی ہے۔
تو وہ نواب پاؤں پر پاؤں دھرے مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتا ہے ہم نے عورت کو سر پر نہیں چڑھایا ہے۔جہاں ایسے سوچ رکھنے والے عوامی نمائندے عوام پرمسلط کیے جائیں یا اپنے بل بوتے پر آئیں وہاں عورتوں کی سیاسی عمل میں شراکت داری کتنی ہوسکتی ہے۔آج تک بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کتنی عورتیں ہیں جو اسلام آباد کے ایوانوں تک اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی کہانی بتا چکی ہیں؟ وہ عورت جو زچگی کے دوران بچے کو جنم دیتے ہوئے فوت ہوجائے یا وہ عورت جو کسی ذاتی جھگڑے میں کاروکاری کا نام دے کر قتل کردی جائے۔گھٹن زدہ سماج میں کٹھ پتلی توپیدا ہوسکتے ہیں، زندہ انسان نہیں۔اقتصادی استحصال سے لے کر domestic تشدد کا شکار عورت کی کہانی بتانے والا کون ہے؟
اکیسویں صدی میں بلوچستان کے پیشتر علاقوں میں عورتوں کو خودمختار بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی سیاسی پروگرام تک نہیں ہے کسی سیاسی پارٹی کے پولیٹکل سلوگن میں عورت کی نمائندگی کا یا تو ذکر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ایسے سماج جہاں عورت کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہ ہوں وہاں عورت تو اپنی جگہ، مرد بھی سیاسی بونے پیدا ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ملکوں میں عورتیں نظام حکومت چلاتی ہیں چاہے جرمنی کی وائس چانسلر انگلیلا مرکل ہو، نیوزی لینڈ کی بہادر وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن، ڈنمارک سے لے کر ارجنٹنا، ناروے،چلی،مالٹا کو چلانے والی خواتین ہیں۔
مگر ہماری شومئی قسمت کہ ہمارے سماج میں اب بھی عورت کو سیاسی اشتراکی عمل میں حصہ داری اپنی جگہ، زندگی کے روز مرہ امور میں اس کی شراکت یا شمولیت آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں ہے۔مردوں کے سماجی ڈھانچے میں عورت بس کیچن کی زینت ہے اس سے آگے سوچنا گناہ کبیرہ ہے۔اور اگر کوئی اس پسماندہ علاقے سے نکل کر آگے بڑنے کی کوشش کرے بھی تو اسکے راستے میں اتنے کانٹے بو دئیے جاتے ہیں کہ منزل تک پہنچ بھی نہ پائے۔مگر بحیثیت ایک عورت کے بلوچستان کے شہری علاقوں میں بیٹیوں کو تعلیم دینے کا رجحان جس تیزی سے بڑھا ہے اس سے آنے والے روشن کل کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔
ابھی منزل دور ضرور ہے مشکلیں بھی ہیں رکاوٹیں بھی،راستے کے پتھروں کے خوف سے چلنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔مگر صرف اتنا ضرور کہوں گی کہ عورت کو سیاسی شراکت داری میں قوم پرست جماعتوں نے سنجیدگی سے نہ کوئی حصہ دینے کا سوچا ہے۔ نہ قومی سیاست کرنے والی بیشتر جماعتوں نے عورت کو جائز نمائندگی دی ہے تاکہ وہ عورت کو لیڈ کرسکے،انکے مسائل پر بڑے فورم پر بات کر سکے،عورت کی ترجمانی کرسکے،عورت کی آواز بن سکے۔
اگر ہم واقعی میں ایک مضبوط مستحکم سماج چاہتے ہیں جہاں سماجی نا ہمواری نہ ہو، برابری ہو،کسی کا استحصال نہ ہو تب عورتوں کو بھرپور نمائندگی دی جانی چاہیے۔تمام سیاسی جماعتوں کو عورت کی نمائندگی بڑھانے اور انکو آگے بڑھنے کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔