|

وقتِ اشاعت :   August 6 – 2020

فرعون دنیا کا واحد حکمران تھا جو خدائی کا دعویدار تھا لیکن اس فرعون میں تین اچھائیاں تھیں جن کی بدولت خدا انہیں مزید مواقع دے رہا تھاکہ شاید وہ راہ راست پر آجائے۔ان تین خوبیوں یاصفات میں پہلی خوبی بہترین عدل و انصاف اور منصف یعنی حقائق پر مبنی فیصلے کرتے تھے،دوسری خوبی سخاوت روزانہ سینکڑوں گائے اونٹ بکریاں ذبح کرکے اپنے عوام اور رعایا کو کھانا کھلاتا تھا،تیسری خوبی مظلوم ومحکوم پر رحم دلی اور ترس کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ان تین خوبیوں کی بدولت فرعون کی فرعونیت جاری و ساری تھی جب فرعون نے ان خوبیوں میں کمی یا ان کو بند کرنا شروع کر دیا۔

تو اللہ جل شانہ کے سخت عذاب کی گرفت میں آگئے اور رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے سرکشی کرنے والے ہمیشہ نمونہ عبرت بنتے رہے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ دنیا کی تاریخ اور کتابوں میں ایسی ہزاروں داستانیں موجود ہیں جو ظلم و ناانصافی کی بدولت وجود میں آئے۔ ظلم چاہے جس روپ میں ہو یا کیا جائے وہ اللہ کی گرفت سے ہرگز نہیں بچ سکتا۔بلوچستان کے قبائلی نظام میں فرعونیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے جہاں قبائلی یا طاقتور شخصیت کی حکم عدولی پر خاندان سمیت موت، ذلت اور رسوائی مقدر بن بناد ی جاتی ہے۔

بلوچستان کے ایسے قبائلی فرعون مظلوم و محکوم عوام اور قبیلے کے لوگوں کیلئے قہر و عذاب بن کر نازل ہو تے ہیں۔ بلوچستان کا سخت قبائلی نظام صوبے کی جدید ترقی میں روکاٹ ثابت ہوتا آ رہا ہے،ان قبائلی امراء کی طاقت عوام اور علاقوں کی پسماندگی اور محرومیوں کی اصل وجہ ہے۔ بلوچستان،پاکستان یا یوں کہیں کہ خطے کا واحد صوبہ ہے جہاں طاقتور کیلئے کوئی قانون نہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ طاقتور کے سامنے قانون صرف مکڑی کا جالا ہے۔ جس معاشرے یا سماج میں غریب اور شریف کیلئے الگ الگ قانون ہو جو کمزور پر تو فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔

لیکن طاقتور کے سامنے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ زور آور قانون کی نظروں سے اوجھل ہو کر صوبے میں اپنی ظلم و زیادتیوں کا بازار گرم کرتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے ہی عدم مساوات پر مشتمل نظام قائم ہو جاتا ہے اور معاشرتی خرابی یا بگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔ دنیا میں مہذب اور جمہوری سوچ رکھنے والے اقوام کی ترقی اورخوشحالی آزادی اظہار اور آزادی صحافت ہی کی بدولت ہے۔بلاشبہ آزادی اظہار کا حق پاکستان کا آئین اور انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کا چارٹرڈ بھی دیتا ہے لیکن بلوچستان میں آزادی کا مطلب اپنے موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔

بلوچستان میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے بدلے میں بیشمار اور جید صحافیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے اور آج تک ان شہید صحافیوں کے کسی ایک کے قاتل تاحال گرفتار تک نہ ہو سکے ہیں اور نہ ہی کسی کو ان شہید صحافیوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں قانونی اداروں کا بھی عجب تماشا ہوتا ہے مرنے کے بعد کچھ سرگرمیاں اور مشتبہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ کے بعد اور اظہار مذمت اور افسوس کے بعد سب کچھ فراموش کیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب صحافی اور صحافتی تنظیمیں بھی چند دن احتجاج اور سوگ کے بعد خاموش ہو جاتی ہیں۔

اور پھر انہی شہداء کے قاتل دندناتے پھر کر کسی اور حق و سچ کے متلاشی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے مشن پر لگ جاتے ہیں۔ بلوچستان کا ضلع خضدار بھی مضبوط قبائلی نظام کے زیر اثر ہے جہاں حق اور سچ کی پاداش میں صرف خضدار ہی سے درجن بھر صحافی شہید کئے گئے لیکن آج تک نہ تو ان کے قاتل قانون کی گرفت میں آئے اور نہ ہی قانون نے ان قاتلوں کی چوکھٹ پر حاضری دی، اگر قانون سب کیلئے برابر ہوتا تو یقینا آج ایسے فرعون نما قاتل ضرور قانون کی گرفت میں ہوتے۔

خضدار کے بعد بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی دن دھاڑے حق و سچ کی پاداش میں ارشاد مستوئی سمیت دیگر تین صحافیوں کو بھی گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا گیا لیکن ان کے قاتلوں تک بھی قانون کے ہاتھ نہیں پہنچ سکے۔ بلوچستان کے صحافی حق اور سچ کی لگن میں پورے خطے میں شہادتوں کے ریکارڈ قائم کر چکے ہیں اور ساتھ ہی بلوچستان کی انتظامیہ قانون ساز و تحقیقاتی ادارے بھی ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں جہاں مکمل ناکام ہو چکے ہیں وہاں ان شہید صحافیوں کے قاتلوں کی گرفتاری میں بھی یکسر ناکام ونامراد ہو چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں حق و سچ کی پاداش میں ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا، بارکھان کے نوجوان صحافی انور جان کو بھی ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی، نوجوان صحافی علاقائی مسائل اور نجی عقوبت خانوں،ظلم و زیادتی، پسماندگی،عدم ترقی، محرومی اور علاقے میں فرعونیت کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا کہ ان کی آواز اور قلمی جہاد کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔ بارکھان میں شہید صحافی کے قلمی شعور ہی کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی قبائلی لارڈ کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے اور شاید اس سخت احتجاج اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی بدولت مقدمہ درج کرکے کسی سردار کو نامزد کیا گیا ہے۔

تاہم کیا صرف مقدمہ قائم کرنے سے آزادی صحافت اوراظہار رائے کا تقدس بحال ہو سکے گا؟ کیا اس طرح کے صرف مقدمات کے اندراج سے آج تک کسی قاتل نے قتل کرنا چھوڑ دیا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایسے قانون شکن اور قاتلوں کو کیف کردارتک پہنچایا جائے اور ساتھ ہی یہ تحقیقات کی جائیں کہ ان طاقتور افراد کو کون سی طاقتور قوتیں مدد اور سپورٹ کرتی ہیں کہ جس کے باعث ان قوتوں کے خلاف قانون کبھی حرکت میں نہیں آتی؟موجودہ حالات میں ان فرعونوں کا بلاامتیاز محاسبہ کون کرے گا؟ اور شہید صحافی انور جان کے قتل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا کب دی جائے گی۔

اگریہ تسلسل جاری رہا تو صوبے کے دیگر طاقتور طبقات بھی بلوچستان کے حق وسچ لکھنے والے صحافیوں کوراستے سے ہٹائیں گے۔ دوسری جانب آج تک بلوچستان میں درجنوں شہید ہونے والے صحافیوں کا نہ تو عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) اور نہ ہی عدالت عالیہ (ہائیکورٹ) نے سوموٹو ایکشن لیا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت نے آج تک کسی بھی صحافی کی شہادت پر کوئی جوڈیشنل انکوئری بنانے کی کوشش کی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ”قانون صرف طاقتور کے لیے“ کا مفروضہ غلط ثابت کرے اور قانون حقیقی معنوں میں حرکت میں آکر شہیدصحافی انور جان کے قتل میں ملوث با اثر اور طاقتور ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ بحال کرے۔

سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ شہید صحافی انور جان کے قتل کے مقدمہ میں نامزد مرکزی ملزم سردار عبدالرحمن کھیتران کو بھی وزارت سے خود ہی مستعفی ہو کر آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات میں تعاون کرنا چاہئے تاکہ آزادانہ ماحول میں تحقیقات ہو سکیں اور ساتھ ہی ایک بہترین مثال بھی بن جائے، پھر وہ عدالتوں میں پیش ہوکر اپنے اوپر لگے الزامات کو غلط ثابت کریں اور ساتھ ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی شہید صحافی انور جان کے قتل کی تحقیقات کیلئے آزاد تحقیقاتی کمیشن اور جوڈیشنل انکوائری کمیٹی بنانے کے احکامات جاری کریں۔

تاکہ عوام اور میڈیا پرسنز ان آزادانہ تحقیقات سے مطمئن ہوں اور ساتھ ہی تحقیقاتی کمیٹی کی شفارشارت پر ایکشن لیکر شہید صحافی انور جان کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں نیز بلوچستان میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی حکومت خصوصی طور پر قانون سازی کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ صحافیوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہو تاکہ آئندہ حق و سچ کا کوئی بھی طاقتور یا قبائلی شخصیت گلہ نہ گھونٹ سکے۔