چلیں اب بات کرتے ہیں وزارت تعلیم کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں رہی،نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں مرحوم شفیق احمد خان وزیر تعلیم تھے تو جان علی چنگیزی بھی تعلیم ہی سے جڑے ایک حصے کے وزیررہے، اس دور میں وزرا ء کو کھپانے کیلئے ہم نے تعلیم کے دو سے زائد وزیر دیکھے انکے بعد یہ محکمہ پشتونخواہ میپ کو کوٹے پر ملا پہلے سردار رضا محمد بڑیچ مشیر تعلیم ہوئے پھر کچھ عرصے بعد یہ محکمہ عبدالرحیم زیارتوال کو ملا یہاں تک کہ موجودہ حکومت میں بھی تعلیم کا قلمدان بطور مشیر محمد خان لہڑی کے پاس تھا، انکی حالت بھی پی ٹی آئی کے نکالے گئے وزیر موصوف سے مختلف نہ تھی لیکن نصیر آباد گروپ انہیں بچا گیا۔
اب چند ماہ قبل کابینہ میں ہونے والی ردوبدل میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے وزارت تعلیم کی ذمے داری سنبھالی ہے اور وہ بلوچستان میں پہلی بار کسی وزارت کی ذمے داری لینے آئے ہیں تو ابھی تک وہ ذرا بلوچستان میں وزارت کو وفاقی وزارت کی طرح چلانے کے خواہش مند تھے لیکن اب چند ماہ میں انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ ان سے کہاں کیا غلطی ہوئی۔ بحر حال اب بھی وہ چاہیں تو بازی پلٹ سکتے ہیں کیونکہ انکے پاس ایم سی آر کے نام سے شوران میں ایک اسکول قائم کرنے اور اسے چلانے کا تجربہ تھوڑے عرصے کا سہی لیکن موجود ہے۔
اسلئے انہیں بیوروکریسی کو ایسے ہی رکھنا ہوگا جیسا کہ ایم سی آر کی مینجمنٹ رکھتے ہیں بصورت دیگر صورتحال انکے بھی قابو میں نہیں رہیگی اور پھر انکی داستان بھی دیگر وزراء تعلیم سے مختلف نہیں ہوگی۔سی پیک کے بعد میری نظر میں ایک محکمہ ایسا ہے جسے اب نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی اور وہ ہے محنت و افرادی قوت کا محکمہ۔ آجکل یہ محکمہ محمد خان لہڑی صاحب کے پاس ہے پتہ نہیں محکمہ تعلیم میں انکی اعلٰی کارکردگی انہیں اس محکمے میں لے آئی یا پھر ابھی تک اس محکمے کو بھی ہم نے ایسے ہی چلانا ہے جیسے اسے مولوی سرور موسٰی خیل نواب رئیسانی کی کابینہ میں چلا رہے تھے۔
کیوں کہ بظاہر ہماری دلچسپی اس لئے نظر نہیں آرہی کہ اس محکمہ کی ٹیم بھی ایسی نہیں کہ وہ کچھ لانگ ٹرم پلان کرے۔ اس سارے ماجرے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام افراد وزیر یا مشیر تھے،ہیں یا رہینگے جنکا ذکر کرچکا ہوں۔ان میں نہ تو کوئی صحت کا ماہر تھا نہ تعلیم کا لیکن چونکہ سیاسی مجبوریوں اور مخلوط حکومت کی مجبوریوں میں ایسے ہی وزیر مل سکتے تھے اور ملے اسلئے میری یہ رائے ہے بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد پینسٹھ سے بڑھ کر اگر اسی ہوگئی تو کیا کچھ ٹھیک ہوجائیگا،میرا جواب ہے نہیں، جس ایوان میں ایک وزیر اطلاعات نہ ملتا ہو جہاں ایک ماہر طب بطور وزیر صحت نہ پہنچ سکے۔
جہاں ایک تعلیمی ماہر کے لئے اسمبلی کے دروازے بند ہوں وہاں آپ جو بھی کرلیں نہ بلوچستان کا مثبت امیج بنا سکیں گے نہ تعلیم اور صحت کا نظام ٹھیک ہوگا اسلئے اسی ہوں یا پینسٹھ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نئی سیٹوں کی کہانی انجمن مفادات باہمی کے سوا کچھ نہیں ہے اس سے چرواہے کے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر واقعی فیصلہ ساز سوچیں تو انہوں نے اقلیتی برادری کیلئے جیسے دھنیش کمار ڈھونڈنکالا ہے جو کہ ستر سال بعد سکھ برادری کو انکی عبادت گاہ واپس دلوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتا ہے جو ہنگلاج کے مندر تک رسائی کیلئے ایک سال میں ایک زبردست سڑک مکمل کروالیتا ہے جو کہ تعلق تو لسبیلہ کی ہندو برادری سے رکھتا ہے۔
لیکن اسکے دل میں درد بلوچستان کی تمام اقلیتوں کا ہے کچھ ایسے ہی ٹیکنو کریٹس بھی سلیکٹرز کو ڈھونڈنے چاہئیں جو اس ٹیکنا لوجی کے دور میں وزارت اطلاعات کو کامیابی سے چلائیں، کوئی ایسا ماہر طب ڈھونڈھ نکالیں جو درد سے چور بلوچستان کے مریضوں کو کوئی پین کلر فراہم کرسکے یا پھر ڈلیوری کے درد میں مرتی کسی معصوم کو ایک گائنی کی ڈاکٹر فراہم کرسکے،کوئی ایسا ماہر تعلیم ڈھونڈھ نکالیں جو بلوچستان میں دس سے پندرہ ایسے اسکول بنا دے جہاں سے فارغ التحصیل چرواہے کا بچہ میرٹ پر اسلام آباد،لاہور،کراچی کے طلبہ کا مقابلہ کرسکے۔ بلوچستان میں بہتری کیلئے سیٹیں بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔
خدارا ہارے ہوئے جواریوں پر مزید جوا نہ کھیلیں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہاں یاد رکھیں جنرل ریٹائیرڈ پرویز مشرف نے بہت بہترین کام کیا کہ اسمبلی رکنیت کیلئے گریجویشن کی شرط رکھی جس سے ایک بہتر نمائندگی اسمبلیوں تک پہنچنے کی امید ہو چلی تھی لیکن اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے جعلی ڈگری والوں اور مدرسہ کے سند یافتہ افراد کو ساتھ ملاکر غلطی کر گئے۔ باقی کہانی کے ابتدا ء میں مولو اور اسکے گدھے اور ہمارے نظام پر بات کی تھی۔کہانی ہے مولا بخش مولو اسکے گدھے اور ہمارے نظام کی بقول ظفر معراج کے مولو جب تک سیٹی نہیں بجاتا گاؤں کا کوئی بھی شخص گدھے کی پیٹھ پر بیٹھ کر اسے قابو کرنے کا دعوٰی کرتا ہے۔
لیکن جیسے ہی سیٹی بجتی ہے گدھا (سٹوکی مارکر) یعنی دو لتی مار کر اپنے سوار کو اپنی پشت سے نیچے زمین پر پھینک دیتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ گدھے کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویدار اسے اس وقت تک کنٹرول رکھتا ہے جب تک مولو سیٹی نہیں بجاتا ہے تو آخر میں صرف اتنا ہی کہ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مولوسمجھدار ہے اور وہ جانتا ہے کہ اب گدھے پر کس نے اور کب تک سواری کرنی ہے۔ (ختم شد)