عید قرباں سے قبل ایک تحریر کی آخری لائنیں لکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ آئندہ دس سے پندرہ دن تک لکھنے کو کچھ نہیں ہوگا اور ویسے بھی کوئٹہ میں عید کی چھٹیاں تھوڑی طویل ہوتی ہیں اب ہم بھی کوئٹہ وال ہوگئے ہیں تو ایسا سوچنا تو بنتا ہے۔ قومی سطح پر بڑی خبر بنی، شاہ محمود قریشی کا کشمیر کے معاملے پر سعودی رویئے پر دیا گیا کاشف عباسی کا انٹرویو یاد رکھیں چند دن قبل لکھ چکا تھا بڑی خبر کیساتھ بڑے فیصلے کا وقت ہے۔ یہ اسی سلسلے کی کڑیاں لگتی ہیں چلیں بڑی خبر اور بڑے معاملے پر تحقیق کے بغیر کچھ نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔ویسے عید قربان کے بعد جو پکنک پلان بنے تھے سب ادھورے رہ گئے۔
کیونکہ ہماری ڈاکٹر برادری سمجھ رہی ہے کہ جس طرح بے احتیاطی عید کے دنوں میں کی گئی ہے خدشہ ہے کہ کرونا کیسز بڑھ سکتے ہیں خدا کرے یہ خدشہ ہی ہو،ان خدشات نے ہمارے سارے پلان الٹ پلٹ دیئے، ہائے باربی کیو ، سجی،کڑھائی، پائے ان سب کیلئے دوستوں کیساتھ جو منصوبہ بندی کی تھی ان پر عمل در آمد اب ممکن نہیں لگتا ہے تو سوچا کیوں نہ تن تنہا بولان کی سیر کر آؤں، کہیں دشت میں گھومتا چرواہا مل گیا تو بولان بی بی زیارت تک اچھی کچہری رہیگی ویسے بھی کچھ ایسی باتیں سننے کو ملی ہیں جو مجبور کررہی ہیں کہ چرواہا سے حال احوال ہونا ضروری ہے۔
سیٹلائیٹ ٹاؤن سے براستہ بائی پاس سبی روڈ پر پہنچا ہی تھا کہ کچھ دور جاکر چرواہا اپنے ریوڑ کو ہانکتا ہوا جا رہا تھا مجھے دیکھ کر مسکرا دیا، اس سے سلام دعا ہوتے ہی پوچھا آج ریوڑ لیکر کہاں جانے کا ارادہ ہے؟چرواہا بولا تم بتاؤ یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہو یہ دشت یہ بیاباں میرے ہیں جہاں میرے ریوڑ کو خوراک ملے گی وہاں رک جاؤنگا۔میں نے کہا میرا ارادہ بولان جانے کا ہے، چلوگے؟چرواہا بولا اگر نہ جاؤں تو میں نے کہا اگر تم نہ گئے تو میں بھی نہیں جارہا تو چرواہا قہقہ لگا کر ہنس پڑا کہ تم کس مقصد کے تحت آئے تھے، تفریح کرنے یا مجھ سے ملنے۔
میں بولا دونوں کام کرنے کا ارادہ تھا اب تفریح کی قربانی دینی پڑیگی پھر بولا بیٹھو اس پتھر یلی زمین پر یہاں چھاؤں ہے،یار شوانگ کرونا نے بڑا پریشان کر رکھا ہے اور ہمارے ڈاکٹر سمجھ رہے ہیں کیسز بڑھ رہے ہیں تو بھائی جب ڈاکٹر کہتے تھے سخت لاک ڈاؤن کرو تو تمہارا وزیر اعظم کہتا تھا گھبرانا نہیں ہے،اب کیوں گھبرا رہے ہو۔ یار ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ عید الفطر والی غلطی نہ دہرائیں لیکن ہماری قوم نے وہی کیا جو اسکے دل کو بھایا اور یار شوانگ اس وزیر اعظم نے بائیس سال جو باتیں کیں اب ان پر خود عمل نہیں کرتا تو ہم کیسے کرلیں۔
اسکا اعتبار یار خبری تم کرو یا نہیں، عوام نے تو ویسا ہی لاک ڈاؤن رکھا جو اس ملک کا وزیر اعظم چاہتا تھا تو اب کرونا اپنی مرضی سے پھیلے گا وہ تو تمہاری عوام اور وزیر اعظم کا پابند نہیں ہے اور اگر کرونا پھیل بھی گیا تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں پھر کہنا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔یار شوانگ ہلکی بارشیں کوئٹہ میں شروع ہو رہی ہیں میری جنم بھومی میں بھی تیز بارشیں جاری ہیں اور ندی نالوں میں طغیانی ہے، حب ڈیم کا پانی بھی بڑھ رہا ہے کوئی کہہ رہا تھا ان برساتوں کے بعد بلوچستان میں کسی سیاسی سیلاب کے آنے کا بھی خدشہ ہے یار خبری جو دل میں ہے۔
وہ پوچھو میرے پاس جو خبر ہوگی بیان کردونگا،یار شوانگ اے این پی بلوچستان نے چند روز قبل سانحہ آٹھ اگست کی برسی کی تقریب کے این او سی کی منسوخی پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ”بلوچستان حکومت میں رہینگے یا نہیں اسکا فیصلہ دس اگست کو پارٹی کی مرکزی میٹنگ میں ہوگا“ تمہاری خبر کیا ہے چرواہا لمبی سانس لیکر گویا ہوا یہ بتاؤ وہاں اصغر خان اچکزئی تھا؟ زمرک خان اچکزئی تھا؟ یا ملک نعیم بازئی بیٹھا تھا؟ نہیں یار یہ تینوں نہیں تھے،سنا ہے اے این پی کی صوبائی عہدیداران ضرور موجود تھے پھر یاد رکھنا اے این پی مارچ تک کوئی مارچ نہیں کرسکتی اگر کریگی تو دو صدمے سہے گی۔
پہلا پارلیمانی گروپ کی تقسیم کا جہاں اسکے دو ممبران علم بغاوت بلند کرینگے، وہیں آنے والے سال جو ایک سینیٹر کیلئے بی اے پی سے حکومت کے قیام وقت مذاکرات ہوئے تھے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی گی۔ اب اس ساری صورتحال میں ولی باغ کچھ بھی کرلے یہاں ولی باغ کے فیصلے پر عمل اتنا آسان نہیں ہے اسلے کہہ رہا ہوں اے این پی فی الحال مارچ تک مارچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں،خاطر جمع رکھو،تمہارا والی ریاست فی الحال مضبوط ہے۔اسکے ساتھ ہی شوانگ اپنے ریوڑ کو ہانکنے لگا ارررررررررر میں گویا ہوا یار شوانگ تم کہاں چلے؟
خبری پریشان نہ ہو میں تم شہر والوں کی طرح بے مروت نہیں ہوں کہ مہمان بیٹھا ہو اور میں چل پڑوں، مجھے سندھ سے آتے بادل کچھ پیغام دے رہے ہیں اس سے قبل برسات یہاں پہنچے تم تو تفریح کروگے میرا ریوڑ بھیگ جائیگا اور میرے سادار اس علاقے کے ندی نالوں میں طغیانی میں پھنس جائینگے اسلئے انہیں اکھٹا کر رہا ہوں، میں فی الحال بیٹھا ہوں جو احوال لینا ہے لے لو۔ اچھا شوانگ جان جمالی کل اسمبلی میں کیوں گرج چمک کیساتھ برسے تھے؟یہ ابتدائی بونداباندی ہے تھم جائیگی یا پھر طغیانی کیساتھ کوئی سیلاب آئیگا اور سب کچھ بہا لیجائیگا۔
یار خبری دیکھو کیپٹن ر جان جمالی کا مسئلہ ایسا ہے کہ سیدھا دکھا کرالٹا مارتا ہے اگر تم اسکے کل کے اسمبلی بیان پر حیران ہو تو یاد رکھو کیپٹن ر جان جمالی بظاہر کہہ تو وفاق کی پی ٹی آئی کی حکومت کو رہا تھا لیکن سنا اپنی جماعت کے سربراہ جام کمال کو رہا تھا۔ یار شوانگ مجھے لگتا ہے کہ اس نئی جماعت کا مرکزی خیال بھی کچھ سال قبل جان جمالی صاحب ہی لائے تھے کہیں اب انکا حکومت کے خاتمے کا خیال پھر کچھ حلقوں کو پسند آجائے تو پھر کیا ہوگا؟ خبری نئی جماعت والا مرکزی خیال کپیٹن ر جان محمد جمالی اپنے لئے لائے تھے اور پر امید تھے کہ اسکے بینیفشری وہ ہونگے۔
لیکن جام یوسف مرحوم جیسے خاموشی سے اپنے دور میں میلہ لوٹ جاتے تھے ویسے ہی جام خاندان کے چشم و چراغ جام کمال تیسری نسل ہے جو بڑی خاموشی سے انٹری دیکر پہلے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر بنے اور اب وزیر اعلٰی، ویسے بھی انکے والد جام محمد یوسف مرحوم بہت سے ہیوی ویٹ سرداروں اور نوابوں کے درمیان جنرل ر پرویز مشرف کو بہت پسند تھے۔ اب رہ گئی جان جمالی کی دھواں دھار تقریر تو وہ پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں اور کیپٹن ر بھی ہیں تو وہ اپنے بھتیجے جام کمال کو وقتاًفوقتاًاپنی اسمبلی میں موجودگی کا احساس اس وقت دلاتے جب جام کمال جام یوسف کے بجائے جام کمال بنتے ہیں۔
اور کسی معاملے پر اڑ جاتے ہیں، جتنے انکے والد مصلحت پسند تھے اتنے جام کمال نہیں ہیں تو اسلئے جان محمد جمالی صاحب کی اس دھواں دھار تقریر پر پریشان نہ ہواور یاد رکھو دو ہزار تیرہ کے دور میں جان جمالی کسی اصول پر ن لیگ سے ناراض نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنی صاحبزادی کو سینیٹربنانے کے معاملے پر میاں برادران سے الجھ پڑے تھے جسکے نتیجے میں انہیں اپنی اسپیکر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا اور پھر اسکا غصہ انہوں نے اس وقت نکالا جب نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور ہاں خبری اس سے پہلے کہ بارش ہمیں آگھیرے،دو باتیں سن لو مارچ سے پہلے کوئی مارچ ممکن نہیں ہے۔
لیکن اگر وفاق میں بیٹھی حکومت خود کوئی غلطی کرے تو الگ بات ہے، اگلے سینیٹ کے انتخابات سے قبل نہ تو مرکز میں کچھ ہوگا نہ بلوچستان میں کچھ ہوتا دکھتا ہے۔ باقی اے این پی کا بیان صرف زبانی جمع خرچ ہے اور جمالی صاحب بھی کچھ غصہ دکھا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا نا چاہتے ہیں اسلئے مارچ تک جو کچھ بھی ہوگا یہ ہلکی پھلکی موسیقی ملک میں جمہوری حکومت ہونے کی علامات کے طور پر دنیا کو دکھانے کیلئے ہوگا۔ یار خبری اب میں چلتا ہوں بوندا باندی سیاسی اور موسمی جاری ہے تم اس لطف اندوز ہو میں بھی اپنے ریوڑ کو منزل کی طرف لیکر جاتا ہوں ارررررررررررررررررہش اررررررررررررررر