معاشرے میں سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہوتا ہے جبکہ غیر سیاسی فرد کا نہیں ہوتا ہے۔ دراصل غیر سیاسی فرد میں سیاسی شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ اور وہ معاشرتی برائی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ سیاسیات ایک علم ہے جس کو ریاست کو جاننے کا علم کہا جاتا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے یونان کے ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق ارسطو کہتا ہے کہ“علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“کراچی کی قدیم آبادی لیاری نے بے شمار سیاسی ورکرز پیدا کئے۔ جنہوں نے ریاست کی غیر جمہوری پالیسوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان ورکروں نے جیل کی سلاخیں اور شہادتیں بھی دیکھیں۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے لیاری کو لٹل ماسکو بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسپورٹس کے میدان میں لٹل برازیل کالقب ملا ہے۔
کراچی کے پسماندہ ترین اس لٹل ماسکو نے واجہ صدیق بلوچ کو بھی جنم دیا۔ وہ بچپن میں اچھے فٹبالر تھے۔ انہیں قومی جبر نے فٹبالر سے سیاسی کارکن بنادیا۔ صدیق بلوچ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے لیاری سے حاصل کی۔ ایس ایم کالج سے گریجویٹ کیا۔ اور جامعہ کراچی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں قائم عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کا بزور خاتمہ کیا اور نیپ قیادت کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرکے انہیں حیدرآباد جیل میں قید کردیا۔ جن میں سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میر غوث بخش بزنجو، صدیق بلوچ سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔صدیق بلوچ دیگر رہنماؤں کے ساتھ پانچ سال جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بظاہر وہ صرف حیدرآباد جیل میں ہوتے تھے۔
مگر انہیں دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ کبھی کبھار سکھر جیل اور مچھ جیل میں بھی شفٹ کرتے تھے۔ اس زمانے میں صدیق بلوچ کے بڑے صاحبزادے عارف بلوچ دوسری کلاس کے طالبعلم تھے۔ انہیں کامریڈ اپنے ساتھ تینوں جیلوں میں لے جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں قیدیوں سے ملاقات کے دوران بچوں کی تلاشی نہیں لی جاتی تھی۔ عارف بلوچ کے موزوں اور کپڑوں میں شیونگ کریم اور بلیڈ چھپائے جاتے تھے۔ جو ان قید سیاسی رہنماؤں کے لئے لائے جاتے تھے۔حال ہی میں ڈی ایم سی ساؤتھ کے چیئرمین ملک فیاض احمد نے ریکسرلائن، لیاری میں نئی تعمیر ہونے والے اسکول کو واجہ صدیق بلوچ نے نام سے منسوب کیا۔ دوسال قبل جب صدیق بلوچ کے سوئم میں ملک فیاض نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ریکسر لائن میں زیر تعمیر اسکول کو واجہ صدیق بلوچ کے نام سے منسوب کرینگے۔
انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ملک فیاض نے لیاری کی ایک اعوان فیملی کے گھر میں آنکھ کھولی۔ جس کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ ملک صاحب نے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے علاقے میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ وہ نہ صرف اچھی بلوچی بولتا ہے بلکہ بلوچ کلچر ڈے کی تقریبات کے انعقاد میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں بات صرف بلوچی بولنے کا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے کردار کے لحاظ سے بھی ایک مکمل بلوچ ہے۔دراصل بلوچ ایک کردار کا نام ہوتا ہے۔ بلوچ معاشرے میں رہنے والا کسی غیر بلوچ کو بلوچوں جیسی خصوصیات (کردار) ہوں تو اس کو بلوچ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بلوچ کے اندر بلوچوں والے کردار نہ ہوں تو انہیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے یہ غلط کام کیا ہے آپ بلوچ نہیں ہوسکتے۔
ان سے بلوچ ہونے کی شناخت (لقب) واپس لیا جاتا ہے یعنی اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور اس سے سماجی رابطے ختم کئے جاتے ہیں۔اس کی کئی مثالیں ہیں جن میں ایک کردار کامریڈ ہدایت حسین بلوچ کا ہے۔ ان کا تعلق اردو اسپیکنگ کمیونٹی سے ہے۔ وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم رکن تھے۔ وہ جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لاء کے دور میں لیاری جایا کرتے تھے۔ لیاری کے کامریڈوں نے کامریڈ ہدایت حسین کو اچھے کردار کے پیش نظر انہیں بلوچ کا لقب دیا۔ آج بھی لوگ اس کو کامریڈ ہدایت حسین بلوچ کہہ کر پکارتے ہیں۔ کامریڈ ہدایت حسین بلوچ، سینئر صحافی اور مصنف، زاہد حسین کے چھوٹے بھائی ہیں۔بلوچ معاشرے میں زندگی گزارنے کا مکمل کوڈ آف لائف ہوتا ہے۔
اگر اس کوڈ کو اپناؤگے تو آپ معاشرے کا حصہ ہو ورنہ آپ کو معاشرہ قبول نہیں کریگا۔ بلوچ معاشرہ ایک احتسابی عمل کا نام ہے۔ بلوچ معاشرے کا احتسابی عمل ہر بلوچ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بلوچ طرز زندگی کے آداب کو اپناتے ہوئے معاشرے میں مثبت عمل کا مظاہرہ کرے۔ امن پرستی کا مظاہرہ کرے جنگ اس صورت میں کرے جب معاشرے میں سماجی نابرابری جیسی صورتحال پیدا ہو۔ ہر طرف ناانصافی ہو۔ بلوچ کلچر اور روایات ریاستی جبر اور سماجی ناانصافی کے خلاف لڑنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بلوچ کوڈ آف لائف نے بلوچ کو ایک جنگجو اور بہادر قوم بنایا ہے۔
بلوچ تاریخ میں بے شمار جنگیں ملیں گی۔ میر حمل ہوت نے پرتگیز سامراج کے خلاف جنگ کی اور بلوچستان کے ساحل کو ان کی تسلط سے آزاد کرایا۔اسی طرح میر چاکر رند نے مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر اور خان قلات میر نصیر خان نے درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان فتح کرکے دے دیا تھا۔بلوچ سماج میں جب بچہ آنکھ کھولتا ہے۔ تو دائی اس کی آنول نال کاٹ کر پھینکتی نہیں ہے بلکہ گھر کے باہر زمین میں دفناتی ہے۔ بظاہر یہ عام لوگوں کے لئے یہ معمولی بات ہوگی۔ لیکن اس کے پیچھے ایک کمٹمنٹ ہوتا ہے۔ یہ کمٹمنٹ اس بچے اور سرزمین (جائے پیدائش) کے درمیان ہوتا ہے۔ یعنی وہ اس سرزمین کا دعویدار ہوتا ہے۔ اور وہ اس کو (زمین) کو اپنی ماں تصور کریگا۔ وہیں سے سرزمین کی حفاظت کا تصور جنم لیتا ہے۔ایسی بے مثال روایتیں ہیں۔
اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ سے دوستی کرنے کے لئے بلوچ تہذیب اور ثقافت کی پاسداری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے حکمران بلوچ کلچر کو سمجھنا تودرکنار وہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک لفظ بلوچ اور بلوچی کا مطلب سمجھ نہیں سکے۔ ہمارے حکمران کبھی کہتے ہیں کہ ملک میں بلوچی عوام کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ تو کبھی کہتے ہیں مجھے فخر ہے میں بلوچی ہوں، وغیر وغیرہ بلوچ تہذیب وثقافت کے مطابق لڑائی کے دوران دشمن کے خواتین اور بچے جنگ سے مستثنٰیٰ ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا عیب تصور کیا جاتا ہے۔لیکن آج بلوچ معاشرے میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ بلوچ علاقوں میں خواتین اور بچوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔
اس کی مثالیں ہیں۔ حال ہی میں تربت کے علاقے ڈنک اور تمپ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے واقعات ہیں۔ دو مختلف واقعات میں دو بلوچ خواتین کا قتل کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ضلع آواران میں چار بلوچ خواتین کو گرفتار کرکے ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔پاکستان تہذیبی بحران کا شکار ہے اس تہذیبی ثقافتی بحران میں تہذیب و تمدن کی جنگ ہے۔ ایک طرف غیر بلوچ ثقافت اور دوسری طرف بلوچ ثقافت ہے جس کی وجہ سے آج بلوچ سماج ایک جنگ کی صورتحال سے دوچار ہے۔ پورا بلوچستان شورش زدہ ہوچکا ہے۔ بلوچ تہذیب وثقافت کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ جس دن حکمرانوں کو بلوچ تہذیب وثقافت سمجھ آگئی۔ تو حالات بہتر ہونے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔