آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصو صاًبلوچستان کے اندر گذشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور موجود ہ حالات کے تنا ظر میں دور اندیش رہنما بابا نزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دو چار ہیں۔ آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑ رہے ہیں ان کو دیکھ کر بابا بزنجو کی شدید کمی محسوس کر تے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں بابا بزنجو کی جمہوری و عملی سیاست، ان کے تبصرے اور سیاسی بصیرت ان کے بتائے ہوئے مشاہدے جس طرح سچ ثابت ہوئے ہیں ان کا انداز ہ آج عرب ممالک کے اندر، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور سوویت یونین میں جو آخری مرتبہ آپ نے گوربا چوف اور دیگر عالمی رہنماؤوں سے ملاقاتیں کی اور سوویت یونین کے اندرونی حالات کا جو جائزہ لیا اور جو پیش بینی کی اور ان کے اثرات، دنیا پر کس طرح اثر انداز ہونگے وہ آج سب کے سامنے ہیں۔
آج بین الاقوامی سامراجی قوتوں نے جس تیزی کے ساتھ بلوچستان کا رخ کیا ہے اور جن کے اثرات آنے والے دنوں میں ہم پر جس طرح اثر انداز ہونے جارہیں ہیں۔ وہاں ہم قابل فخر بابا بلوچستان جیسے ہستی کے ہونے اور تجزیوں سے محروم ہیں۔ بابا بزنجودسمبر1917ء کو شانگ جھاؤنگ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں آواران اور بعد میں کوئٹہ منتقل کئے گئے۔ سنڈیمن سکول میں آٹھویں جماعت کا یہ طالب علم 1935ء کے زلزلے سے محفوظ رہے۔ کوئٹہ کی یہ تباہی ہزاروں جانیں نگل گئی اور بہت ہم بڑے ترقی پسند شخصیت یوسف عزیز مگسی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جامعہ یوسفیہ، تکمیلِ انسانیت، انجمنِ اتحاد بلوچاں، فریادِ بلوچستان یوسف عزیز مگسی ایک ایسے دور میں ہم سے چلے گئے۔
جن کی انتہائی ضرورت تھی۔27سال تک کی عمر میں وہ بلوچوں کی تحریک اور جدو جہد میں نمایاں کردار ادا کررہے تھے۔ ترقی پسند خیالات کے، کٹھن سرداری و نوابی اور جاگیرداری دور میں جس طرح وہ لیڈ کر رہے تھے یقینا آگے چل کر مزید ابھر کر سیاسی دائرے میں شامل ہوکر حقوق کی اس جنگ میں نمایاں ہی رہتے۔لیکن وقت ظالم ہے اور ”مادر وطن کے بہترین فرزند“ یوسف عزیز مگسی زلزلے کی نذر ہوگئے۔اس کے بعد بابا بزنجو کا سفر شروع ہوتا ہے۔ نوجوان بزنجو علی گڑھ یونیورسٹی کے سیاسی ماحول سے اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہے سکے۔ کانگریس سوچ کے حامل بابا بزنجو ایک کشادہ ذہین کا مالک رنگ، نسل اور تعصب سے بالاتر ہوکر اس ادارے کی تربیت گاہ میں اپنا سیاسی سفر شروع کر نے لگا اور کانگریس کی پالیسیوں نے میر بزنجو کے دل و دماغ کو روشن خیالی سے اور بھر دیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے ماحول نے جو اثرات میر بزنجو پر چھوڑے وہ واپس آکرجمہوری موقف اپنانے اور بلوچستان کے حالات کی تبدیلی کیلئے بڑی حد تک کافی تھے اور یہ بابا ئے بلوچستان‘ بین الاقوامی سطح پر اُجاگر ہو ا۔ انقلابوں کے اور جمہوری رویوں کے پاسباں نے اپنے خطے میں جمہوری جدوجہد کو پرواں چڑھانے میں جو کلیدی کر دار ادا کیا وہ آج سب کے سامنے ہے۔ ون یونٹ کے خلاف زندانوں میں یکساں قیادت اور جدوجہد میں سر فہرست رہے ہیں۔میر بزنجو اپنے محبوب عوام اور بلوچستان کے لئے جدو جہد میں نہ صرف پاکستان وجود آنے کے بعد بر سر پیکار رہے بلکہ پاکستان بننے سے پہلے بھی کبھی مکران بدر، کبھی قلات بدر، کبھی خان احمد یار خان کے اپنے گھر میں پابند ِ سلاسل رہے۔
سردار وں اور نوابوں نے میر بزنجو اور ان کے رفقاء کو جس طرح اذیت اور در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا، تعلیمی رکاوٹوں سے لے کر ہر قسم کی ستم ظریفی نے بابا بزنجو کے پختگی و ذہانت کو مزید عملی جامع پہنایا۔ ریاست قلات کے ظلم و جبر نے بابا بزنجو کو ابو الکلام آزاد اور نہرو جیسی شخصیات سے مزید قریب کیا۔حقو ق کی یہ جنگ قلات سے ہندوستان تک جا پہنچی۔ 1947 ء کو جب بر صغیر سے انگریزوں کا انخلاء شروع ہوا تو ریاست قلات کی آزادانہ اور جداگانہ حیثیت بر قرار تھی لیکن بر صغیر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ایک طرف خان قلات کو سرداروں کی حمایت حاصل تھی۔
تودوسری طرف بابا بزنجو اور ان کے رفقاء کی سیاسی پالیسیاں اور سوچ بڑی رکاوٹ بن کر سامنے کھڑی تھی۔ ریاست قلات کے آزادی کے بعد 1947کو بابابزنجو نال خضدار کے حلقے سے ایوان ِ عام کے رکن اور پارلیمانی لیڈر منتخب ہوئے۔جنہیں ایوانِ خاص کے سرداروں کا سامنا تھا۔ جن کا مقصد ریاست قلات کا الحاق اور سرداری نظام کو مضبوط کر نا تھا۔جس کی میر بزنجو اور ان کے رفقا ء نے بھر پور مخالفت کی اور ان کی دیوانِ عام سے ڈھاڈر کے مقام پر تاریخی تقریر نے جو تاریخی اہمیت حاصل کی و ہ بابا بزنجو اور ان کی رفقا ء کی عملی جد و جہد کی عکاسی ہے۔بابا بزنجو اور ان کے رفقا ء پر نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد جو غداری کا مقدمہ چلا یا گیا تودیگرمقدمات کے علاوہ ایک الزام یہی تھا کہ بابا بزنجو نے 1947کو ایوانِ عام میں ڈھاڈر کے مقام پر الحاق کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ 1958 ء کو ون یونٹ کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی۔ ون یونٹ توڑ دو کے نعرے گونجتے رہے اور نوٹوں پر چھپتے رہے۔
ایوبی مارشلا کے اس سخت ترین دور میں بھی ان رہنما ؤں کے حوصلے چلتن اور شاشان کی طرح بلند تھے۔ اس دوران بابا بزنجواور ان کے رفقاء کو نظر بند کیا گیا اور وہ کلی کیمپ کی اذیت گاہوں میں اذیتیں برداشت کرتے رہے مگر ان کے حوصلے اور جمہوری جدو جہد یکساں جاری و ساری رہی۔ واقعی بابا بزنجونے سیاست کو عبادت سمجھ کر خود کوعوامی تحریکوں کیلئے وقف کر دیا۔ تب ہی تو کہتے تھے بابا بزنجوسیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ 1970ء کو یحٰیی کے دور میں بابا بزنجواور نیپ کے دیگر رہنماؤں نے ملکر پارٹی کو نہ صرف مضبوط اور مستحکم بنایا بلکہ 1971ء کے الیکشن میں اس پارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
یوں ایک سیاسی اور عوامی رہنما پہلی مرتبہ گورنر بلوچستان بنائے گئے اور بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے چانسلر بنے۔ بھٹو دور میں اس عوامی حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور ساری قیادت کو جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد ضیاء آمریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔جہاں ان رہنماؤوں نے ہر میدان میں کھل کر اس آمریت کی مخالفت، جمہوری عمل کے فروغ کے لیے ان تھک جدوجہد کی، اس دوران ایم آر ڈی بنائی گئی اور ضیا ء الحق کے آمریت کے خلاف صف بند ہوگئے اور بابا بزنجوکے اس دور کے یہ شاندار الفاظ ”پوری فوج کو بحیثیت ادارہ سیاست سے نکال باہر کرنے سے ہی جمہوریت ممکن ہوگی“ اس دوران بابابزنجونے پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل دی جو اس کی سوچ کی حامل پارٹی تھی۔
1987ء کو کوئٹہ میں منعقد بہت بڑے جلسے عام سے جس میں خان عبدالولی خان بھی شامل تھے بابا بزنجو کے یہ الفاظ ”آپ لوگوں کی بندوق کی نالیاں جو آج افغان ثور انقلاب کی طرف ہیں۔ یہ حکمران ہوش کے ناخن لیں، کان سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے امریکہ نواز حکمرانوں کو میں یہ صاف صاف بتادینا چاہتاہوں وہ دن دور نہیں ہوگا جب ان بندوقوں کی نالیاں اسلام آباد کی طرف ہونگے اور اسلام آباد کے حکمران بھی اس سے محفو ظ نہیں رہ پائینگے“۔ جن کی نشاندہی آج کے حالات خود کررہے ہیں۔
بابا بزنجو نے پوری زندگی اُصولو ں کی سیاست کی اور ان پر کار بند رہے۔ بین الاقوامی طور پر ہمیشہ ترقی پسند وں کا ساتھ دیا۔امن کیمپ کے سپاہی تھے۔سو شلسٹ قوتوں کے قریب تھے۔ایک نظریاتی کارکن تھے۔ پوری زندگی سیاست ہی ان کا محور تھا۔زندگی کا آخری سفر بھی اپنے عوام کے ساتھ کیا۔ تب ہی تو انہوں نے کہا تھا ”میں نے وطن اور اہل ِ وطن سے عشق کیا ہے اس میں کہا ں تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ عوام کرینگے“۔ جاگیرداری، بیوروکریسی، مارشل لاء آج بھی ملک کے سیاہ سفید کے مالک ہیں۔
سیاسی کارکن آج بھی تاریخ راہوں میں مارا جاتا ہے۔ اور سرداروں کی تعداد میں اب تو اور بھی اضافہ ہونے لگا ہے دوسری طرف ترقی پسند کہلانے والے گروپس بھی محض نمود و نمائشی اور اندر ہی اندر وہ روایتی اورقبائلی رشتے اور رویے۔ مگر بابا ہم مایوس نہیں کیوں کہ ہم تو آپ ہی کے پیروکار ہیں اور اس خیال پر ہمیں یقین ہے کہ
”ہوگا طلوعِ کوہ کے پیچھے سے آفتاب“
پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری بابا بزنجوکے متعلق لکھتے ہیں ”بزنجوتو پھر بزنجوتھا‘ متوازن، مہربان اور بالغ فکر۔ اس بڑے انسان نے چاہ بہار سے لیکر جھنگ تک اور نیم روز سے لیکر خان گڑھ تک، ایک پورے بر صغیر کی سیاست کی۔ ایک بے انت صحرا کی باغبانی کی۔بزنجوکی سیاسی بصیرت اورمستقبل بین مزاج نے پڑوسی لیڈر شپ اور دانشوروں کو متاثر کیا۔ بزنجو بلوچ تہذیب و تاریخ کے ساتھ ابد تک اس صورت جڑا رہے گا، جسے نظر انداز کبھی بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ وہ شخص مستقبل میں بہت دیر تک اچھے انسانوں کو اپنے بارے میں، اپنے نظریات و سیاست کے بارے میں اور ان کی روشنی میں اُس عہد کے دور کے بارے میں بڑے بڑے ہالوں کے اندر جمع کر واتا رہے گا۔ اپنی سوچ کے تسلسل میں چلنے والے اُس دور کے قافلے میں شامل کر واتا رہے گا۔
بزنجو مکمل طور پر ایک سیاسی انسان۔ وہ اندر،باہر، ظاہر، باطن، سیاست ہی سیاست تھا۔بزنجو مذاکرات کا بیٹا، بھائی اور باپ تھا۔ بزنجو بلوچستان کی خشک زمین اور کٹھن کوہستانوں کا البیلا۔ بابا بزنجو کی سب سے بڑی خصوصیت ثابت قدمی تھی۔ کوئی ادل بدل، کوئی دایاں بایاں نہیں، یار دوست ادھر اُدھر گئے، کوئی یہاں لپکا کوئی وہاں جھپکامگر میر بزنجو گہر ی جھیل کی طرح کوئی ارتعاش نہیں کوئی پسِ پیش نہیں۔ بستر مرگ تک اپنی اس بات پر قائم رہا کہ قوموں کو ان کی پیدائشی اور فطری انسانی حقوق دئیے جائیں“۔