|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2020

موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے کھوکھلے دعوؤں کے پول کھول گئے، بارش کیا ہوئی عربوں اور کروڑوں روپے مالیت سے بنے روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ہر طرف غریبوں کی بستیاں ڈوب رہی ہیں غریب رو رہا ہے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے،خدا سے مدد مانگی جارہی ہے زمینی خداؤں نے تو صرف قبضہ جما رکھا ہے۔ڈوبے ہوئے بستیوں میں سوائے فوٹو سیشنز کے کچھ نہیں ہو رہا۔ فلاں خان نے فلاں جگہ کا دورہ کیا اور فوٹو نکال کر رفو چکر ہوگیا۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے لوگوں کی امیدیں اب صرف خدا سے جڑی ہیں۔

فلاں خان نے اگر کچھ کرکے دکھانا ہوتا تو آس پاس کے گاؤں پسماندگی کا شکار نہیں ہوتے جھونپڑیوں میں زندگی بسر نہ کرتے۔ انکی پہلے کی پسماندگی کا ذمہ دار فلاں خان وہاں کے کرپٹ میر و سردار منتخب نمائندے ہیں اور انکی دربدری سے بھی آج وہی نام نہاد لوگ امدادی سامان سے اپنی بیٹھکیں بھرینگے۔غریب مزید پستا جارہا ہے اور بااثر لوگوں کو مزید ترقی نصیب ہوگی، بلوچستان بھر کے علاقے جہاں لوگ بے گھر ہوئے۔ ان کے کچے اور لکڑی کے گھر بھی انکے لئے تاج محل تھے لیکن یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ ہماری پسماندگی کا سبب غلام ابنِ غلام بھی ہے۔

ہم نے اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف بجائے بغاوت کے جی حضوری کو ترجیح دی۔آج اگر بولان بلوچستان کے برسوں پرانے کافروں کے بنائی سڑکوں کودیکھا جائے تو وہ اتنے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں جتنا مؤمن مسلمان حاجی صاحب کے ٹھیکوں پر بنے پل و روڈ ٹوٹے ہیں۔