گوادر کے مختلف وارڈز(ماہی گیروں کے علاقے) میں درجنوں مکانات انتہائی خستہ حال و ناقابلِ استعمال ہیں اور کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ مملْکتِ خْدائے داد کا عالمی شْہرت یافتہ شہر گوادر میں درجنوں ایسے خاندان ہیں جن کو چوبیس گھنٹوں میں بمشْکل ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ الغرض روزانہ کی بنْیاد پر اگر اْنکو مزدوری نہ ملے تو رات کو اْنہیں کھانا نصیب نہیں ہوتا جسکی وجہ سے وہ کسی چھوٹی سی مرض سے اپنے کمزور و لاغر جِسم اور کم قوتِ مْدافعت کے سبب موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم گوادر کا اساس کہنے پر حق بجانب ہونگے۔ جن کی وجہ سے گوادر بنا اور گوادر ہے۔ جنہیں ماہی گیر کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ سمندر کا سینہ چیر کر نہ صرف اپنا روزی روٹی کماتے ہیں بلکہ مملْکتِ خدائے داد کو سالانہ کروڑوں اربوں کا زرّ مْبادلہ بھی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ بدقسمتی سے باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب یہ طبقہ(ماہی گیر) روز بروز معاشی بدحالی کے شکارہوتے جارہے ہیں اور اِن میں کئی خاندان فاقہ کشی پر مجبْور ہیں۔ نہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکتے ہیں اور نہ ہی اِنکے پاس پیسہ و سرمایہ ہے کہ اپنا کوئی کار و بار کرسکیں۔
اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اِن کے بچوں کیلئے الگ سے کوئی بہتر تعلیمی ادارہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی جدید و ٹیکنیکل طریقوں سے ماہی گیری سے متعلق کوئی ادارہ بنایا گیا ہے جس سے مقامی ماہی گیر اپنے بچوں کے مسْتقبل کو محفوظ بناسکیں۔ غْربت کی لکیر سے نیچے زندگی گْزارنے والے اکثر ماہی گیر اپنے باپ دادا کے چھوڑے گئے مکانات میں رہنے پر مجبْور ہیں اور اْنکی مْرمت بھی نہیں کرسکتے۔
گوادر کی کھارا مٹی اور تیز نمی کے سبب اِنکے قدیمی مکانات اِس حالت میں آچکے ہیں کہ آج گرے یا کل اور اِن خاندانوں کے لئے (اللہ نہ کرے) کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی یا وفاقی حکومت کو (یا ضلعی انتظامیہ و مخیر حضرات) آگے آنا چایئے اور اِنکے موت کے کنواں نما مکانات کا مرمت کرنا چایئے تا کہ(اللہ نہ کرے) کسی بڑے نقْصان کے بعد ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہ کرے۔