انسان کو بے شمار نعمتیں ودیعیت کر دی گئیں ہیں جس میں سے ایک عقل بھی ہے۔ عقل کے ذریعہ حضرت انسان سوچتا ہے۔ اور سوچنے کے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔مثبت اور منفی۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے۔ کہ ہم سوچتے تو ہیں لیکن منفی سوچنا ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔منفی سوچنے کی وجہ سے ہمارے جذبات ابھرتے ہی ہمارے منہ سے جو الفاظ تسلسل کے ساتھ نکلتے ہیں۔بالآخر منفی کام سرزد ہوجاتا ہے۔کام کے بعد کردار کا حصہ بن جاتا ہے۔دوسری جانب مثبت اور منفی خیالات کے ہماری زندگی پر نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔
منفی سوچ کا انجام انسان کو اندھیر گھاٹیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ اس کے معاشرتی معاشی اور خاص کر کے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی کمپنی نے اپنا سیلز مین منفی سوچ کے حامل شخص کو لگا دیا ہے۔ کسی پروڈکٹ کو مارکیٹ میں کامیاب کرنے کے لیے سیلز مین کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔منفی سوچ رکھنے والا شخص ایک آدھ مرتبہ مارکیٹ میں جانے کے بعد بھی فرض کر لیتا ہے کہ پروڈکٹ کامیاب نہیں ہو گی اور وہ ہتھیار پھینک دیتا ہے۔ نتیجتاً پروڈکٹ ناکام ہوتی ہے اور کمپنی کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔
اب اگر کمپنی اس پوسٹ پر مثبت سوچ کے عامل، پرامید اور حوصلہ مند انسان کو براجمان کرے۔ پورے دن محنت کرنے کے بعد مارکیٹ میں اگرچہ اس دن اس کا پروڈکٹ نہیں بکا ہوتا ہے لیکن واپس اپنے آفس میں آکر یہ یقین دلاتا ہے کہ کامیابی بہت جلد ملنے والی ہے۔ اس کے مثبت سوچ اور مسلسل محنت ہی کی وجہ سے آخرکار پروڈکٹ کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔بعض منفی سوچ رکھنے والے برتر اور کمتر کے زنجیروں میں گرفتار ہوتے ہیں مشاہدے میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت یا صلاحیت دی ہوتی ہے۔وہ علمی میدان میں ہو،ہنر عہدہ،دولت وغیرہ۔
اپنے آپ کو بالاتر سوچ کی وجہ سے معاشرے سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ ان کی اس سوچ کی وجہ سے ان کے رویہ میں تبدیلی کی وجہ سے ان کا معاشرتی رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔اور زندگی کے اصل خوشیوں سے محروم ہوتے ہیں۔اور میں کے قید خانے میں مقید ہو جاتے ہیں۔دوسری جانب اپنے آپ کو کمتر سمجھنے والے اپنا حوصلہ ہار جاتے ہیں اس منفی سوچ کی وجہ سے پست حوصلے کے ساتھ بغیر مقابلے کی اپنی ہار تسلیم کر لیتے ہیں۔اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اعتدال کے ساتھ آگے بڑھیں۔اگر مثبت سوچ و بچار نہ کیا جائے۔منفی سوچ سے کام لیا جائے تو اس کے معاشرتی اثرات بھیانک ہوتے ہیں۔
منفی سوچ کے حامل انسان میں بغض حسد کینہ غیبت بہتان عداوت اور مایوسی جیسی روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔جس کے نتیجے میں اس کی صلاحیت تخریب کاری میں صرف ہوتی ہے۔ اور اس کا دل پریشانی اور اضطراب کا ٹھکانہ اور مسکن ہوتا ہے۔جتنے ہی نعمتوں سے فیضیاب کیوں نہ ہو خوشی اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔منفی سوچنے کی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں مسلسل منفی ماحول اور منفی سوچنے سے انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر منفی خیالات کو نہ روکا جائے۔ تو ڈپریشن سے آگے بڑھ کر انگزاہٹی میں تبدیل ہو کر انسان اپنی زندگی سے مایوس ہو کر خودکشی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
اب تک ڈپریشن کا علاج دنیا میں کہیں بھی دریافت نہیں ہواہے۔سوائے نشہ آور ادویات کا جس کے ذریعے مریض کو نیند کی دوائی دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ اپنے منفی خیالات کو بھول جائے۔نفسیاتی تحقیق کے مطابق ڈپریشن کا واحد علاج اپنے خیالات پر قابو پانا ہے۔ کئی ہفتوں کے مسلسل مشق کے ذریعے اپنے خیالات پر قابو پایا جائے۔کیونکہ سوچ سے جذبات اور جذبات سے عمل سرزد ہوتا ہے اور عمل سے کردار بنتا ہے۔ منفی سوچنے سے منفی عمل اور کردار بنتا ہے۔مثبت سوچنے سے مثبت عمل اور کردار جنم لیتا ہے۔زندگی میں کامیابی اور خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے۔
جب آپ کے خیالات مثبت ہوں۔لہذا زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس میں موجود تمام نعمتیں اعلیٰ اور ارفع ہے۔ زندگی سے خوب مزہ اس وقت لے سکتے ہیں۔جب آپ مثبت سوچ کے حامل ہوں۔مثبت خیالات اس وقت پروان چڑھتے ہیں۔ جب آپ لوگوں کی مدد اور فلاح کے لیے کام کریں اور ان کے غم اور خوشی میں حصہ لیں۔