بڑی سے دنیا کے نقشے پرچھوٹا سا ملک پاکستان، جو اپنی ایک پہچان رکھتا ہے کرکٹ ہو تو پاکستان کا نام، فٹبال کی ٹیم نہیں ہے لیکن دنیا بھر میں بہترین فٹبال پاکستان بناتا اور ایکسپورٹ کرتا ہے ہاکی میں بھی کبھی ہمارا طوطی بولتا تھا پھر چاہے اسنوکر ہو یا باکسنگ ہم نے اپنے نام کو کھیلوں میں کسی حد تک زندہ رکھا ہواہے یعنی کھیل ہماری شناخت ہیں پھر چاہے کھیل میدان میں ہو یا سیاست میں ہم اس کھیل کے ماہر ہیں۔ یوں تو ہر ملک کسی خاص وجہ سے جانا جاتا ہے جیسے ہماری ثقافت میں تنوع ہے ہماری شہرت کی وجوہات بھی تنوع گیر ہیں جیسے پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاکا چھٹا آبادی والا ملک بھی ہے۔
پاکستان دنیا کا دسواں زرعی ملک ہے جہاں وافر گندم، کپاس، گنا، آم، کھجور، کنو اور چاول پیدا ہوتا ہے اور سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرونی ممالک کو فروخت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی پاکستان کا شمار ان بدترین دس ملکوں میں دوسرے نمبر ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پاکستان میں کم ا ز کم چالیس فیصد بچے نامکمل نشوونما کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں نومولود بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے یعنی پاکستان کثرت خوراک کے ساتھ غذائی قلت کا شکار بچے رکھنے والا انوکھا ملک ہے۔
پاکستان دنیا کی بہترین لڑاکا فوج رکھتا ہے دنیا ہماری مہارتوں کی معترف ہے وہیں پاکستان کا شمار ان دو ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اب بھی پولیو اپاہج کر رہا ہے اور کیسز میں اب ہم نے افغانستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ حکومت نے کامیابی سے دوسال پورے کر لیے۔ایسے میں وزیر اعظم سے شعبہ صحت سے متعلق فیصلوں پر چند سوال ضرور ہیں۔
بمپر فصل پھر بھی غذائی قلت، کیوں؟
حکومتیں آئیں اور گئیں،کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت، مگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے عوام کے حالات، غریب کا بچہ پیدائشی کم وزن ہونے اور صحت کی ابتر صورتحال کی بدولت جلد خالق حقیقی سے جا ملتا ہے اورآئے روز غذائی قلت کا شکار مرنے والے بچوں کی اطلاعات اخبار و ٹیلیوژن پر آتی رہتی ہے جس میں سب سے زیادہ کیسز سندھ کے ضلع تھرپارکر، مٹھی اور بدین سے آتے ہیں اور یہ تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔سال 2018 میں کم و بیش 505 بچے صرف سندھ میں غذائی قلت کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے۔سال 2019 میں 692 لقمہ اجل بنے جبکہ روا ں برس کے ابتدائی پانچ ماہ میں صرف سندھ میں 322 اموات ہو چکی ہیں۔
ملک کی سب سے جمہوری ہونے کی دعویدار جماعت جمہور کے لیے سیاست کرنے اور سہولیات دینے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے یہ اور بات ہے کہ عوامی جماعت کا دعویٰ کرنا اور اس پر پورا اترنا علیحدہ بات ہے وہ بھی ایسے وقت جب کم از کم 30 برسوں سے آپ اپنے ہی صوبے میں برسر اقتدار رہے ہوں۔ اب ملک میں خواراک کی تو کمی نہیں ہے پھرغذائی قلت کا سبب کیا ہے؟ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے چار اہم ستون ہیں۔ پہلا ہے اس کی دستیابی، پھر اس تک رسائی اور پھر استعمال اور استحکام۔“ اور پاکستان میں دستیابی تو ہے لیکن رسائی کے لیے قوت خرید نہیں، تھرپارکر میں ان چاروں کی کمی ہے۔
جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں یہ کسی نہ کسی حوالے سے کوئی نا کوئی وجہ موجود ہے۔ اس وقت جب طرح طرح کے بے تکے معاملات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور مجھ سمیت بہترے لوگ حکومتی کارکرگی اور منصوبہ بندی پر کھل کر تبرہ کرتے ہیں ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کا احساس نشوونما پروگرام یقینا بہتری کی دم توڑتی امید کو سہارا اور وزیر اعظم کے وژنری ہونے پر یقین رکھنے کے لیے باعث تشفی ہے۔ اس پروگرام کے تحت پہلے مرحلے میں نو اضلاع میں تینتیس احساس نشونما مراکز قائم کئے جا رہے ہیں، پروگرام کے تحت سہ ماہی بنیادوں پر بچیوں کو دو ہزار روپے جبکہ بچوں کو پندرہ سو روپے وظیفہ دیا جائے گا اور بتدریج یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔
عوام کی دہلیز تک حکومتی رسائی ہے پھر نئے ڈھانچے کی ضرورت کیوں؟
وزیر اعظم صاحب، یقینا نشونما منصوبہ وقت کی ضرورت ہے جسے کئی دہائی پہلے شروع کیا جانا چاہیے تھا مگرکم از کم آغازتو ہوا لیکن اب اس منصوبے کے تحت نئے مراکز کھولنا، نئی ٹیمز رکھنا ایک طویل اور کثیر سرمایے کا حامل ہو گا۔ براہ کرم ملک میں بنیادی غذائی ضرورت گندم کی قیمت کو کم کر کے اس کی رسائی عوام تک آسان بنا دیں نیز اپنے نام کی تختی اور فیتا کاٹنے کی سیاست سے کنارہ کرتے ہوئے نئے مراکز کھولیں اور ٹیمیں تشکیل دینے سے کم توانائی اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پولیو کے لیے کام کرتی صحت مراکز کو استعمال کیجئے جس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔
کورنا کے بعد ملک میں ایک بار پھر سے انسداد پولیومہم شروع ہو گئی ہے اور صرف اگست کے مہینے میں 3کروڑ 40لاکھ بچوں کو ملک کے 130 اضلاع میں انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا حدف مقرر کیا گیا ہے، نشونما پروگرام کو ٹائیگر فورس کی طرز پر سیاسی حربے کے بجائے حقیقی معنی میں قوم کے مستقبل کی نشونما کے طور پر مکمل کیا جائے اگر ایسا ہو گیا تو یہ آپ کی بڑی کامیابی ہوگی۔ وزیر اعظم صاحب، لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام وفاق، صوبوں اور تمام اضلاع میں مربوط طریقے سے جاری ہے جس میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر تقریباً ایک ہزار لوگوں، ڈیرھ سو گھروں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
جو ہر گھر کی خواتین، بچوں ان کی صحت کے مسائل اور ضروریات سے واقف ہوتی ہے جس کا تعلق اسی علاقے سے ہوتا ہے تاکہ با آسانی لوگوں کو سمجھ سکے اور اپنی سمجھا سکے۔ احساس نشونما پروگرام کے لیے علیحدہ ٹیموں کی ضرورت نہیں ہو گی اور نا ہی نئے مراکز پر سرمایہ کاری ہو گی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذمے ماں بچے کی صحت، خاندانی منصوبہ بندی، ویکسینیشن اور انسداد پولیو مہم ہے اس کا دائرہ کار بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ اس پروگرام کی دنیا معترف ہے جس کے تحت اس وقت کم وبیش ملک بھر میں نوے ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود ہیں اور پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں صحت کے اشاریے بہتر ہوئے ہیں، کورونا کی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جیسے پولیو ہیلپ لائن کا کامیابی سے استعمال بطور صحت تحفظ 1166 کیا گیا اس میں مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔
سستا علاج آپ کی خواہش لیکن سرکاری پرچی کے پیسے کیوں؟
چوروں سے کیسا شکوہ کریں لیکن سند یافتہ ایماندار وزیر اعظم سے امید ضرور کرتے ہیں کہ وہ عوامی مفاد میں فیصلے ضرور کریں گے لیکن اس کے لیے چاپلوس،نورتن قربان کرنا ہونگے تا کہ ملک کے طول و عرض میں ہوتی انقلابی سرگرمیاں وزیر اعظم تک پہنچ سکیں۔ سندھ پنجاب تو لٹیروں نے لوٹ لیا، بلوچستان کا پرسان حال کوئی نہیں لیکن کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت کو سات سال مکمل ہو گئے ہیں اس وقت پشاور کے تمام سرکاری اسپتالوں میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود او پی ڈی کا آغاز نہیں ہو سکا، لوگ علاج کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں۔
نیز او پی ڈی کی سرکاری پرچی ٹیچنگ اسپتال میں بیس روپے اور ڈی ایچ کیو میں دس روپے ہے جبکہ چوروں لٹیروں کے سندھ میں عوام کو او پی ڈی کی سہولت مفت حاصل ہے اسی طرح نونیوں کے پنجاب میں سرکاری اسپتال کی پرچی پانچ روپے تھی جسے بڑھا کر اب بتدریج ٹیچنگ اسپتال میں پچاس اور ڈی ایچ کیو میں دس روپے کر دیا گیا ہے اس فارمولے کے تحت سرکاری اسپتال میں جو ٹیسٹ کی سہولیات کم پیسوں اور مفت میسر تھیں انھیں ختم کر دیا گیا،اورپرائیویٹ لیبز کو کھل کر من مانی کی اجازت ہے تو دوسری طرف صحت سہولت کارڈ کا ہنگامہ وہیں ادویات کی قیمتوں کے ساتھ کیا کیا گیا وہ محض فسانہ ٹھہرا یعنی صحت کے شعبہ پر صرف فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
تین ماہ میں چار وفاقی سیکرٹری صحت کی آنیا جانیاں لیکن کیوں؟
بلاشبہ حکومت نے دو سال کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیے ہیں اس اہم سنگ میل پر مختلف محکموں نے کارکردگی رپورٹس بھی جاری کیں، مبارکبادیوں کا سلسلہ چلا وزیر اعظم کو اسلامی فلاحی ریاست بننے کے عمل کے بارے میں منصوبہ بندی بھی بتائی گئی ہو گی،،،،،،،، لیکن کیا کسی نے وزیر اعظم کو بتایا کے کرونا کے بعد تین ماہ میں چار وفاقی سیکرٹری صحت کیوں تبدیل ہوئے؟ وزیر اعظم صاحب معلوم کیجئے کابینہ میں آپ کا حاسد کون ہے جس کے مشورے پر پہلے پراپرٹی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے عامر محمود کیانی کو وفاقی وزیر صحت بنایا گیا۔
پھر تقریباً سال بعد جب ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے تو انہیں وزارت سے ہٹا کر پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری لگا دیا گیا یعنی جو شخص کرپشن کے الزامات میں ہٹایا گیا ہو اس کے ہاتھ میں پوری حکومتی پارٹی دے دی گئی، اس کے بعدایک غیر منتخب شخص ڈاکٹر ظفر مرزا کو مشیر صحت لگایا گیا۔
حکومتی سبکی کے فیصلے کے پیچھے کون ہے؟
حکومتی کامیابیوں کے دو سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم ضرور وزراء کو تھپکی دیجئے لیکن سوچئے ضرور عدالت کو کیوں مداخلت کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل کا صدارتی آرڈینینس غیر قانونی قرار دینا پڑا؟ پاکستان میں طبی تعلیم کے نظام، اس کے ڈھانچے اور جانچ پڑتال کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو قیام کے 50 سال بعد اچانک بند کرنے کے فیصلے کے پیچھے کون تھا،ان کا کیا مفاد تھا؟ اس فیصلے سے ملک کے اندر میڈیکل کا مستقبل کا بیڑا غرق ہونا تھا لیکن دنیا بھر میں پاکستانی ڈاکٹرز میں بے چینی تھی ان کی ڈگری کون سا ادارہ تصدیق کرتا کیونکہ پاکستان میڈیل کونسل تو دنیا میں کہیں مستند نہیں تھی۔
وزیر اعظم امین ہیں اس منصب کے جس پر 22 کروڑ عوام نے امیدوں کے ساتھ انھیں بٹھایا ہے انھیں گورننس کو بہتر کرنے کے لیے اہم عہدوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ روکنا ہو گا کیونکہ دنیا کا چھٹا بڑا ملک دوستوں اور رشتہ داروں کی مدد سے تو نہیں چل سکتا۔ وفاقی کابینہ میں کل 51 اراکین ہیں جن میں منتخب افراد صرف 28 ہیں جبکہ 23 کابینہ اراکین غیر منتخب ہیں پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلی ”منتخب“ حکومت ہے جس کی تقریباً آدھی کابینہ غیر منتخب ہے ایسے میں کارکردگی سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی کھیل کود پر ہی توجہ مرکوز رہے سکتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب، سوچئے کیا بانجھ فیصلوں سے تبدیلی کا پودا نکلے گا؟
پاکستان جسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے وزیر اعظم سنجیدہ نظر آتے ہیں اگر ایسا ہے تو پہلے صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک اب بھی صحت کی خدمات پر اپنی جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کررہا ہے جبکہ سرکاری شعبہ صحت کی خدمات کو غیر اطمینان بخش قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو این آر او دینے سے انکار کیا ہے لیکن بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ان کو بھی این آر او نہیں دیا جائے جو حکومت میں شامل ہیں۔ اگر دو سال پورے ہونے پر یہ طے کر لیا ہے کہ رائٹ اور رانگ کی سیاست ہو گی تو عوام کے ساتھ سیاسی کھیل کود بند کروایا جائے اور عوامی فیصلے کیے جائیں اور اگر ایسا ہو گیا تو وزیر اعظم کی اننگ یقینا لمبی چلے گی ورنا تاریخ آپ کو بھی سیاسی شعبدہ باز کہے گی۔
Shahreyar ahmed
Very Informative Article