|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2020

یہ جو آنے والے کل کی سوچ رکھتے ہیں یہ جوکھلی آنکھوں سے سنہرے خواب دیکھتے ہیں یہ جو ایک تصورکامل پریقین رکھتے ہیں میرے دیس میں یہ وقت سے پہلے کیوں مٹ جاتے ہیں یامٹادئیے جاتے ہیں؟میرے دیس میں کیوں ایک بہترمستقبل کی خواب دیکھنے والے کا، ایک زرخیز ذہن رکھنے والے کا، ایک نئی دنیاکی آرزو کرنے والے کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ ہمارے سمیت ہمارے دیس کے حقیقی وارثوں نے کبھی یہ سوچاہے کہ یہ خونی کھیل کیوں رچایا گیاہے اورکب تک اسے یونہی رچایا جائے گا۔جبکہ ایک بہترکل کیلئے سوچنا، ایک سنہرے مستقبل کاخواب دیکھنا اوران خوابوں کی تعبیرکی تمنا رکھنا پوری دنیاکے انسانوں کابنیادی حق مانا جاتاہے۔

مگریہاں میرے دیس میں کئی عشروں سے ایسے خواب دیکھنے والوں کو وقت سے پہلے اورہمیشہ کیلئے موت کی آغوش میں سلادیاجاتاہے۔ہمارے عہدکے نوجوانوں کویہ پیغام دیاجاتاہے تم جوکھلی آنکھوں سے سنہرے کل کا خواب دیکھتے ہو اورتم نئی دنیاؤں کے متعلق جو سوچتے ہو اورتم جو ایک زرخیز ذہن رکھتے ہو۔ ذرا تم یاد رکھنا کہ یہ آتشیں آلہ ہمارے کندھوں پر جو ہروقت لٹکتا ہے اورہماری انگلیاں جوہمیشہ ٹریگر پرلگی رہتی ہیں انہیں حرکت دینے میں کسی قاعدہ قانون، کسی دفعہ اور حکم کی ضرورت نہیں۔ لیکن خواب توخواب ہوتے ہیں وہ نہ کسی بندوق کی نالی سے سہم جاتے ہیں اورنہ کسی ٹریگر والے انگلی کی ڈرسے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔

ایسے ہزاروں خواب دیکھنے والوں میں ایک حیات بلوچ بھی تھا جو ایسی حسین خوابوں کی پاداش میں وقت سے پہلے موت کی وادی میں دھکیلا گیا لیکن حیات زندگی ہوتی ہے اور زندگی مرنہیں سکتی وہ تو بس جنم ہی لینا جانتی ہے اور پھر ان خوابوں کو ان ہی آنکھوں میں بسالیتی ہے۔حیات بلوچ ایک دن ہم سے کہنے لگا۔میں ایک غریب کسان کابیٹا ہوں، میرے خوابوں نے مجھے ”کولواہ“سے کراچی یونیورسٹی پہنچا دیا، ایم فل مکمل ہے۔ پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتاہوں لیکن اس طویل،کٹھن اور کانٹوں بھرے راستے میں معلوم ہے میں یہاں تک کیسے پہنچا؟

ہماری لاعلمی دیکھ کروہ بولا۔ میرے والد اور دوبھائیوں جو مجھ سے بڑے تھے، دن بھرکی مشقتوں کے بعد مشکل سے ہمیں دو وقت کی سوکھی روٹی میسرہوتی تھی اورکبھی کبھار بھائیوں کوکام نہ ملنے پریہ بھی ہمیں نصیب نہیں ہوتا اورہم اکثر خالی پیٹ سوتے تھے۔ نیند کیا آتی جب یہ ظالم پیٹ جوخالی ہو اورہم اکثریہ بھوکی پیٹ اورکالی راتیں،اس امید اوریاس میں سہہ لیتے کہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اپنے قریب کے کھجوروں کی باغات میں جہاں میرا بوڑھا باپ مزارع کی صورت میں کام کرتا تھا، وہاں کجھوروں کے چند دانے اس خالی پیٹ میں ا نڈیل کر پھر اسکول کی راہ لیتا۔

اس لئے یہ کجھورکے باغات مجھے ماں کی طرح پیارے ہیں کیونکہ ان کجھور کے درختوں نے مجھے ظالم بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچالیا۔مجھ سے قبل میرے دونوں بڑے بھائیوں کو اس کم بخت بھوک نے پڑھنے سے محروم رکھا۔اس بھوک اور تنگدستی میں جب میں نے دسویں جماعت پاس کیا توذرا ذہنی طورپر بالغ ہوچکاتھا،تب میں نے سوچا کہ مجھے پڑھ کر وہاں جاناہے اور اس مقام تک پہنچ جانا ہے ایک ایسی جہاں کی تعمیرکرنی ہے جہاں میرے آنے والے حیات اسکول سے محروم نہ ہوں اورنہ کوئی حیات رات بھر بھوک سے جاگتا رہے اورنہ ظالم زمانہ میرے بھائیوں کی طرح ان کے ہاتھوں کا قلم چھین کر انہیں بھوک وغربت تھمادے۔

سوچا کتنے اونچے خواب ہیں اس غریب کسان کے بیٹے کا۔اس کے پاس وقت کی قلت تھی یا ہمارے اس بے خواب اوربے مقصد زندگی کے مصائب، کہ پھر ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔اپنے خوابوں کی تعبیرمیں ”حیات“ وقت سے بھی آگے نکل جاتاہے۔ ایم فل کے بعد اب وہ پی ایچ ڈی کیلئے کمرکس لیتاہے کہ اس دوران بدقسمت کرونا کی وجہ سے ان کی یونیورسٹی بندہوجاتی ہے اوروہ گھرچلا آتاہے اور وہ گھرمیں ہمیشہ کی طرح ان کجھوروں کے باغات میں اپنے ضعیف والد کاہاتھ بٹھانے صبح ان کے ساتھ چلاجاتاہے کہ 13اگست2020ء کا وہ سیاہ دن اور دوپہرکی وہ منحوس گھڑی آتی ہے کہ اچانک ”حیات“ کیلئے زندگی تھم جاتی ہے۔

اوران کے بوڑھے والدین اور چھوٹی بہنوں کیلئے گویا زمین پھٹ جاتی ہے اوروہ زندہ دوگور ہوجاتے ہیں کہ کہیں دورایک کریکر کے پھٹنے کی آوازآتی ہے اورپھر یہ ٹریگر والے آتے ہیں ”حیات“ کو ان کے بوڑھے والدین کے سامنے اٹھاتے ہیں ان کی بوڑھی ماں اور چھوٹی بہنیں آہ وبکا کرتی ہیں ان کے سامنے اپنی سروں کی شالیں رکھ دیتی ہیں، خدا اور رسول کا واسطہ دیتی ہیں کہ یہ بے گناہ ہے۔ یہ بے قصورہے اس نے کوئی جرم نہیں کیاہے لیکن زمین کے ان ناخداؤں کا آسمان کے خداسے کیا خوف اورکیسا ڈر۔انہیں توبس کسی کے سہانے خواب چھیننے ہیں۔

ان مظلوموں کی آہ وبکا کا اثر صرف یہ ہوتاہے کہ وہ ان کے سروں سے دوپٹوں کو زبردستی اتارکر حیات کی آنکھیں اور ہاتھ پیچھے سے باندھ دیتے ہیں اور انہیں ان ہی کے سامنے گولیوں سے بھون دیاجاتاہے اوربلوچستان کے مستقبل کا ایک اورپی ایچ ڈی خون میں لت پت اپنے ماں کے قدموں میں گرجاتاہے۔اور وادی کیچ کی مٹی پھرایک بے قصورکے خون سے سرخ ہوجاتی ہے۔اب نہ یہ حیات رہا۔نہ زندگی رہی اورنہ یہ خواب۔ لیکن میرے دیس میں نہ یہ پہلی حیات ہے اورنہ یہ آخری موت۔ کل پھرکسی ویرانے میں ایک کریکر کا دھماکہ ہوگا یاکیاجائے گا۔

کل پھریہ بندوق بردار جوان آئیں گے۔کل پھر ایک حیات کی زندگی کاچراغ بجھ جائے گا۔ کل پھرایک بوڑھی ماں کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔کل پھر ایک بوڑھے باپ کی زندگی اجڑجائے گی۔کل پھر ایک معصوم بہن اپنے بے قصور بھائی کی جوان لاش پر بین کرے گی۔کل پھر ایک بھائی اپنے بھائی کی موتِ بے وقت پر نوحہ کناں ہوگا۔کل پھر مادروطن کے سینے کو چاک کیاجائے گا۔کل پھر بلوچستان کے ایک پی ایچ ڈی کو اس میں اتارا جائے گا۔کل پھرلاکھوں مردہ نمابظاہر زندوں کے کسی شہر میں چند ایک سرپھرے کسی چوک پر آدھے پوسٹر اٹھائے بھڑ بھڑائیں گے اورکل پھر ہم سب،یہ سب کچھ حسب معمول بھول جائیں گے کیونکہ اب یہ ایک رسم ہے۔ ایک ریت ہے۔ایک رواج ہے میرے بدنصیب دھرتی میں!۔