|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2020

پاکستان میں سب سے زیادہ روڈ حادثے بلوچستان میں ہوتے ہیں اور ان حادثات کی بدولت بلوچستان میں ہی پاکستان کے مقابلے میں روڈ حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے ایک ماہ یعنی جولائی میں روڈ حادثات میں ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہونے والی انسانی اموات کا صرف جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتنی اموات کا ذمہ دار نہ تو ریاست ہے اور نہ ہی قومی وصوبائی حکومتیں ہیں۔ تاہم ان قومی شاہراؤں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کروڑوں روپے کا ٹول ٹیکس یعنی جگا ٹیکس وصول کر رہا ہے جبکہ اس کے باوجود بلوچستان میں قومی شاہراؤں کی تباہ حالی اور خستہ حالی کو بہتر کرنے میں این ایچ اے اور وفاق اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

یا یوں کہا جائے کہ بلوچستان صوبہ این ایچ اے کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں اسی وجہ سے پورے بلوچستان میں آپ کو ایک روڈ بھی دو رویہ اور بہترین حالت میں نہیں ملے گی اور اسی وجہ سے ہی صوبہ بلوچستان کی یہ قومی شاہراہیں مقتل گاہ بن چکی ہیں اور ہمہ وقت ان پر موت کا رقص جاری و ساری ہے۔ لیکن حکمران ان شاہراؤں پر ہونے والی اموات کے باوجود ان کی تعمیر ومرمت کیلئے نہ تو سنجیدہ ہیں اور نہ ہی ان کی روڈز کی تعمیرات ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو ان شاہراؤں پر ہونے والے انسانی اموات کی فکر ہے۔

بلوچستان میں ان ناقص میٹریل سے بننے والی شاہراؤں کے باعث جہاں عوام روزانہ درجنوں افراد کے اموات کا رقص ان شاہراؤں پر دیکھ رہی ہے وہاں اتنی اموات پر این ایچ اے جیسے وفاقی ادارے کے کان تک جوں بھی نہیں رینگتی۔ جبکہ دوسری جانب دنیا کو جہاں کورونا وائرس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہاں پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی بدولت تمام ادارے بند ہو گئے تھے۔ دراصل خطرناک کورونا وائرس ہمارے ملک کے بہترین ادارے این ایچ اے کو بھی کچھ زیادہ ہی لگ گیا تھا جس کی وجہ سے قومی ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی مکمل طور پر لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے تحت مکمل طور پر بند ہو چکا تھا یا یوں کہا جائے کہ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو مفلوج کر دیا تھا اور اسی وجہ سے این ایچ اے بھی خاموشی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

بلوچستان میں روڈز کی تعمیر پر این ایچ اے کی خاموشی جبکہ غنڈہ ٹیکس یعنی ٹول ٹیکس پر بدمعاشی اور زور زبردستی وصولی کرکے بہادری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی شہر کی پانچ کلومیٹر قومی شاہراہ کی تباہ حالی سے جہاں شہری ڈسٹ،گندگی اور مٹی کے باعث عذب میں مبتلا ہیں وہاں روڈ حادثات اور آئے روز گاڑیوں کے الٹنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ پورے پاکستان میں شاید ڈیرہ مراد جمالی واحد قومی شاہراہ ہے جہاں دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود این ایچ اے اس پر توجہ نہیں دے رہی۔اس سال فروری سے قبل قومی شاہراہ کی از سر نو تعمیر کے ٹینڈرز بھی جاری ہوئے۔

اور کامیاب بولی کے بعد کام شروع کرنے کے وقت ہی ملک پر کورونا وائرس کا آسیب آیا جس کے باعث نصیرآباد کے عوام مزید چھ ماہ اس عذاب میں مبتلا رہے۔ ڈیرہ مراد جمالی کی مین شاہراہ پر معمولی بارش میں بھی ایک سے دو فٹ پانی جمع رہتا ہے جو کہ شہریوں کیلئے انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔یہ امر قابل افسوس ہے کہ اب تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے باوجود قومی شاہراہ کی تعمیر کا تاحال آغاز نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے تعمیراتی شعبے کو کام کرنے کی پہلے ہی اجازت دی تھی۔

لیکن اس کے باوجود این ایچ اے اور متعلقہ تعمیراتی فرم نے نہ تو ڈیرہ مراد جمالی میں قومی شاہراہ پر کام کا آغاز کیا اور نہ ہی کسی کو بھی خاطر میں لا کر عوام کو مشکلات سے بچانے اور اذیت سے آزاد کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے اور نہ ہی ڈیرہ مراد جمالی کے عوام پر اب تک این ایچ اے کی نظر کرم ہو رہی ہے۔ اور ساتھ ہی عوام اور ٹرانسپورٹرز کو بھی داد دینا چاہئے کہ تباہ حال روڈ کے باوجود این ایچ اے کوٹول ٹیکس بغیر کسی چوں چرا کے دے رہے ہیں اور ساتھ ہی سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے نصیرآباد سے منتخب قومی اسمبلی کے معزز ممبر نے کبھی بھی اس مسئلہ پر کسی بھی فورم میں لب کشائی کرنے کی جسارت تک نہیں کی۔

اور نہ ہی این ایچ اے کے چیئرمین کو ڈیرہ مراد جمالی قومی شاہراہ پر جلد کام کرنے کیلئے سفارشات کرائیں۔ کورونا وائرس کے باعث تاحال ڈیرہ مراد جمالی کی قومی شاہراہ نہیں بن پا رہی۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے اپنے دورہ ڈیرہ مراد جمالی کے موقع پرعوام کو ماموں بنا کر وعدہ کیا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر قومی شاہراہ پر کام کا آغاز ہوجائے گا لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود قومی شاہراہ پر کام شروع نہیں کیا گیا۔ کیا بلوچستان کے کسی یا نصیرآباد کے منتخب ایم این اے یا نصیرآباد سے صوبائی اسمبلی ممبران، کمشنر نصیرآباد، نیب یا دوسرے ادارے اس اہم مسئلے پر ایکشن لے سکتے ہیں۔

کیا عوامی مسائل کے حل کیلئے سیاست کرنے والے سیاسی اکابرین شہر کے اس اہم ایشو پر کچھ سیاسی سرگرمی دکھا سکتے ہیں؟ کیا تعریف وتوصیف کرنے والے اور عوامی مسائل کو عوام کی دہلیز پر حل کرنے کی نوید سنانے والے عوامی درد دل رکھنے والی سیاسی قیادت اور بار بار عوام کو مبارک باد و خوشخبریاں دینے والے سماجی کارکن نما ان کے ورکر بریکینگ نیوز چلانے والے چند دانشور نما صحافی حضرات ڈیرہ مراد جمالی شہر کے اہم مسئلہ کو بائی پاس کرنے پر کچھ احتجاج کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ عوام کی اپنی خاموشی انہیں مشکلات اور مصائب کا شکار بنا رہی ہے۔

عوام اسی طرح کے عذاب میں مسلسل مبتلا ہو رہے ہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ مبتلا ہیں۔ دراصل عوام بھی خود اس طرح کے گندے ماحول کے عادی ہو چکے ہیں وہ اپنے سیاسی رہنماؤں کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے وہ ترقیاتی منصوبوں کے بدلے اپنے سیاسی آقاؤں کو ناراض کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چاہے وہ گندے پانی یا مٹی زدہ ماحول میں رہیں ان کو ہمیشہ لیڈر کی خوشی چاہئے اور نصیرآباد کے عوام اپنی خوشی پر لیڈران کی خوشی کو ہی ترجیح دیکر باشعور ہونے کا عظیم مظاہرہ کر رہے ہیں؟