|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2020

تربت کے نوجوان حیات بلوچ کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت نے بلوچستان بھر میں ایک طوفان برپا کرکے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔سوشل میڈیا میں ان کے والد اور بوڑھی والدہ کی جوان بیٹے کی سڑک پر پڑی لاش والی تصویر نے بلوچستان بھر کیا ملک بھر کے لوگوں خصوصاً والدین کو رلا دیا۔ یہ ایک ایسی دلخراش تصویر تھی کہ جو ہر ذی شعور انسان کے دل کو چیر کر گزری۔ آج اگر بلوچستان سمیت ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات شدت کے ساتھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے غریب طالب علم حیات بلوچ کی موت نے ملک کی فضا کو رنجیدہ کردیاہے۔

نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر آ کر جس درد ناک اور کرب کے ساتھ ان کے بارے میں اشعار سنائے،ان کے اساتذہ نے ان کی تعریف کے پل باندھے، دوستوں اور ان کے کلاس فیلوز نے کس طرح ان کی مفلسی اور لاچارگی کی حالت میں اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کی تصویر کشی کی، جوں جوں ان کے غریب والدین اور خود حیات بلوچ کی زندگی کے سفر کی داستان سامنے آتی گئی یہ سن کر زخمی دل مزید زخمی ہوا۔ دل سے اس غریب بلوچ نوجوان کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت کی تصویر نظروں سے دور ہونے کا نام نہیں لے رہی جب بھی موبائل استعمال کرنے کی نوبت آتی ہے۔

تو ضرور حیات بلوچ کی اور اس کے والدین کی بیچارگی کی تصویر نظروں کے سامنے آ کر دلوں کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حیا ت بلوچ اپنے ماں باپ کا محنتی اور تعلیم یافتہ بچہ نہ تھا بلکہ ہر درد دل رکھنے والے والدین کی اولاد تھا۔ اس کے دوستوں کے مطابق وہ کراچی جانے سے قبل اپنے والدین کے ساتھ تربت میں کھجوروں کے باغات میں بطور مزدور کام کرتا تھا۔ پھر اسکے دل کے ار مانوں نے اسے جگایا اس نے بوڑھے غریب والدین کی زندگی کو اچھے دنوں میں بدلنے کی ٹھان لی اور مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھی۔

میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والا یہ نوجوان اپنے خاندان کا واحد فرد تھا،کن مشکلات اور مصائب کے ساتھ وہ اپنی جگہ ایک الگ کہانی ہے۔یہیں سے حیات بلوچ نے مزید تعلیم کی ٹھان لی اور اس کے بعد وہ آگے بڑھتا گیا۔غریب والدین ان کی اس محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے خوش تھے کہ ان کے خاندان میں ان کا سپوت کس محنت سے آگے بڑھ رہا ہے یقیناً ان کے دلوں میں بھی نئی زندگی دیکھنے کی خواہش نے بھی جنم لیا ہوگا کہ ان کا نوجوان بیٹا ایک دن اپنی تعلیم کی وجہ سے ان کی کسمپرسی کی زندگی بدلنے میں کامیاب ہوگا۔

یہ سوچ کر انہوں نے بڑے کٹھن اور اعصاب شکن حالات کے تحت حیات بلوچ کے تعلیمی اخراجات اٹھانے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ یہ بات بلوچستان بھر میں محسوس کی جاتی ہے کہ مکران ڈویژن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باوجود اس علاقے کے نوجوانوں نے تعلیمی شعبے میں نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر صوبے کا نام روشن کیا ہے۔ بلیدہ کے ڈاکٹر یار جان عبدالصمد بلوچ سمیت درجنوں افراد اس فہرست میں شامل ہیں۔اس سرزمین نے کئی جوہر پیدا کیے،ڈاکٹر یار جان ایک ایسے شعبے پر کام کررہے ہیں۔

جس سے بجلی کے شعبے میں نمایاں تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ وہ ریسرچ کے شعبے سے وابستہ ہیں کیمبرج یونیورسٹی میں پہنچنے والے بلوچ سائنسدان نے اس خطے کے جوہر نایاب ہونے کا ثبوت دیا یوں انہوں نے بلوچستان سے خلاء میں جانے میں اپنا نام پیدا کیا۔ان سمیت درجنوں بلوچ نوجوان جنہیں عرف عام میں ”مکرانی“ سے یعنی ان کے ڈویژن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان میں اب ایف سی اہلکار کے ہاتھوں شہادت پانے والے حیات بلوچ بھی شامل ہیں جس کے خواب ایف سی اہلکار نے اپنی ہٹ دھرمی اور قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنے دیگر ساتھیوں کے سامنے ہی ایک گولی نہیں بلکہ آٹھ گولیاں ان کے سینے میں ایسے موقع پر پیوست کیں۔

جب ان کے غریب والدین اپنے لخت جگر کو بچانے کے لئے آہ و بکا کررہے تھے لیکن اس سنگدل اہلکار نے ان بوڑھے والدین کی آہ و بکا کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کردیا بقول ان کے والدین کے کہ ان کی شہادت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے انہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے انہیں کسی نے زندہ زمین میں گاڑ دیا ہو، ان کی بھی اپنے بیٹے کے ساتھ موت واقع ہوئی۔ یقیناً یہ واقعہ ان کی یا ہر والدین کا دل چیرنے کے مترادف ہے کہ سنگدلوں نے کس طرح ایک غریب بے گناہ طالب علم کو ان کے آنکھوں کے سامنے شہید کردیا۔

حیات بلوچ کے والد کو جب ایف سی حکام کے ساتھ فاتحہ لیتے ہوئے بٹھائے جانے والے تصویر پر نظر پڑی تو ان کی آنکھوں میں بسی سوگواری نے ہر آنکھ کو اشکبار کردیا کہ کس طرح وہ مجبوری کے عالم میں ایف سی حکام سے فاتحہ لے رہے ہیں جن کے ہاتھوں ان کے جوان بیٹے کی موت واقع ہوئی۔ ان کے والد کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بے جان جسم کولا کر فاتحہ لینے کے لیے بٹھایا گیا ہے ورنہ جب یہ واقعہ ہوا تو انہوں نے سوشل میڈیا والوں سے بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہا ہے۔

حیات بلوچ کی والدہ کی آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرنے والی تصویر نے بھی کئی سوالات کے جوابات ہم سب کو دئیے انہوں نے یقیناً اللہ تعالیٰ سے آہ و زاری کرتے ہوئے یہ کہی ہوگی کہ اے اللہ آپ کی سرزمین پر غریبوں کے ساتھ یہ ظلم کیسا؟ اے اللہ میں بے بس ہوں ہم غریب ہیں کچھ بھی بدلہ لینے کے قابل نہیں،ہم اپنے بیٹے کی بے گناہ شہادت کافیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔انہی لمحات سے ہر انسان کو خوف خدا ہونا چائیے کہ جب کوئی بے بس اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر دکرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو جس طرح اپنے انجام تک پہنچا تا ہے۔

وہ بھی ہمارے سامنے درجنوں واقعات کی صورت میں موجود ہے کہ کس طرح اللہ نے ظلم کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ بہر حال اس بلوچ نوجوان حیات بلوچ کی شہادت نے سرکار اور عوام میں جو تلخی کی فضا محسوس کی جارہی تھی اس میں کمی لانے کی بجائے مزید اضافہ کردیا ہے جو یقیناً نیک شگون نہیں۔ اب حکمرانوں کا فرض بنتاہے کہ وہ بلوچستان کو آتش فشاں بننے سے کس طرح روکتے ہیں یہ ان کے اقدامات کو دیکھ کر آئندہ چل کر سامنے آئے گا۔ اگر بزور طاقت اور قوت کے استعمال سے حالات بہتر بنانے کا فارمولا کامیاب ہوتا تو ہمارا پڑوسی ملک افغانستان اس کی بڑی مثال کے طورپر ہمارے سامنے موجود ہے۔

جہاں چالیس پچاس سال کی طویل اعصاب شکن جنگ کے بعد دنیا کا سپر پاور امریکا پسپا ہو کر افغانستان سے نکلنے کے لیے منتوں پر اتر آیا ہے کہ کسی طرح اس دلدل سے نکلنے کا موقع ملے۔ کیونکہ اس طرح کی جنگوں نے ملکوں کو آباد نہیں بلکہ ان کو تباہ و برباد کرکے ہی چھوڑا ہے۔ مضمون کے آخر میں سوشل میڈیا پر چلنے والے چند پیغامات اپنی تحریر میں لارہا ہوں کہ کس طرح ملک بھر میں اس درد کو محسوس کرتے ہوئے لوگوں نے اپنا دکھ بھی شئیر کیا ہے۔ کوئٹہ والوں کے نام سے تحریر کیا گیا ہے کہ ”سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا“ ایک بستی ہے جسے لوگ بلوچستان کہتے ہیں۔

بلڈی سویلین کے نام سے ٹویٹ پیغام میں ہے۔ کہ حیات کو موت دینے کیلئے تو فقط ایک گولی کافی تھی بقیہ سات گولیاں کیوں ماری گئیں؟ ایک سوشل میڈیاکے مطابق جب دلوں سے خدا کا خوف ختم ہوجائے تو پھر اس کے غضب کا انتظار کیجئے‘حیات بلوچ کے والد کی تصویر پر یہ کیپشن بھی دیا گیا ہے کہ ”اے مصور!تجھے استاد مانوں‘ درد بھی کھینچ میری تصویر کے ساتھ“ ایک اور پیغام میں لکھا گیا ہے کہ ”لشکر بھی تمہارا ہے سردار بھی تمہارا ہے‘ تم جھوٹ کو سچ لکھ دو‘ اخبار بھی تمہارا ہے‘ ان اندھیروں کو چیر کر نور آئے گا‘ تم ہو فرعون‘ تو موسیٰ بھی ضرور آئے گا‘ وغیرہ وغیرہ‘ ایک اور پیغام میں کہاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی گئی ڈھیل کو اپنی چالاکیاں مت سمجھو وہ جب رسی کھینچتا ہے۔

تو انسان منہ کے بل گرتا ہے۔ایک اور پیغام میں تحریر ہے کہ ”عجب دہشت گرد تھا حیات بلوچ“ ہتھیار کی بجائے قلم رکھتا تھا“ حیات بلوچ کے والد کی تصویر پر یہ تحریر ہے کہ”ان آنکھوں میں گہن سادکھائی دیتا ہے جیسے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے ہوں‘ نمرہ پر کانی“ معروف ٹی وی آرٹسٹ انور مقصود نے حیات بلوچ کے والدین کی تصویر پر اپنا پیغام تحریر کیا ہے کہ”مجھے نہیں معلوم بلوچستان میں یہ قومی جدوجہد ہے طبقاتی یا کوئی اور مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس طرح بلوچستان کے بیٹے سرراہ خون میں لت پت ملتے ہیں وہاں اب ظلم کی اندھیری رات زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتی“ ایک پیغام انگریزی میں کچھ اس طرح سے ہے کہ ”
Balochistan has lot another bright kid who was hitting the last beats of his graduation from Karachi University. A much talented, creative and reform-seeking youth of the nation is no more. I have taken a few of his school and language classes and while nurturing kids, I had known these young ones who do miracles but watching them lay down in coffins fill my heart with sorrows.
Hayat was a confident, humble and compassionate student. He often wondered bringing about change in society undoubtedly, he had vibrant dreams for his society.
But the vibrancy of his dreams are all whitened now. The pearl we have lost today is taking a way down to treasure reduction of the nation. We can’t afford more loss in the treasure.

Justice for Hayat Mirza