|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2020

بلوچستان ہائی کورٹ کے واضع احکامات ہیں اراکین اسمبلی اپنے فنڈز مرضی پر خرچ نہیں کر سکتے ہیں جبکہ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اراکین اسمبلی کو ملنے والے فنڈز کو تمام محکموں میں تقسیم کار کا پلان دیا تھا جس کی وجہ سے تمام محکموں کو ضرورت کے مطابق ترقیاتی فنڈز کا حصہ ملنے لگا ہے نصیرآباد دویڑن خاص کر نصیرآباد جعفرآباد اور صحبت پور میں سیاہ کاری کے واقعات رونما ہوتے ہیں بیشتر واقعات میں خواتین قتل ہونے سے بچنے کی صورت میں گورنمنت کا خواتین شلڑ ہاوس نہ ہونے کی وجہ سے نوابوں سرداروں وڈیروں یا پھر سعادات کے گھروں میں پناہ دی جاتی ہے۔

ڈائریکڑ سماجی بہبود نصیرآباد سیلم خان کھوسہ کی ذاتی کوشیشوں سے نصیرآباد سے منتخب عوامی نمائندوں نے خواتین کے شلٹر ہاوس تعمیر کے لیے فنڈز تو نہ دیئے لیکن صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے چار کروڑ روپے کی رقم خواتین کے لیے ڈیرہ مراد جمالی میں شلٹر ہاوس کی تعمیر کے لیے فنڈز دیئے شلٹر ہاوس کی تعمیر کے لیے مواصلات وتعمیرات نصیرآباد کو مزکورہ فنڈز جاری کیئے گئے گزشتہ دونوں وزیراعلی بلوچستان تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ خواتین شلٹر ہاوس کا معائنہ کیا چار کروڑ کی رقم سے تعمیر ہونے والا شلٹر ہاوس میں ناقص میڑیل کا واضع استعمال نظر آیا جس کی وجہ سے کام بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے پتہ چلا کہ محکمہ کے ایماندار ایکس ای این نے بیواوں کے گھر کے تعمیر پر سولہ فیصد یعنی64 لاکھ روپے ایک وزیر کو رائلٹی کے نام پر دیئے ہیں۔

جن کا کوئی حق نہیں بنتا ہے سترہ فیصد محکمہ بی اینڈ آر کے آفیسروں کا کمیشن 68لاکھ سات فیصد فنڈز کی منظوری کے لیے سیکریڑی بلوچستان چیف انجنئر ز ودیگر کوئٹہ کے آفیسروں کے 28لاکھ روپے 28لاکھ روپے انکم ٹیکس اور تین فیصد خزانہ آفیس نصیرآباد کے لیے 12لاکھ روپے جبکہ ٹھیکدار اپنے کے لیے بھی 20فیصد یعنی 80 لاکھ روپے بچت ضرور کرے گا ان تمام کمیشن کی رقم کو حساب کیا جائے تو چار کروڑ سے 2کروز 80لاکھ روپے بنتے ہیں اس کے علاوہ آڈٹ والوں کا حصہ الگ ہے یہ حالت بیواوں کے لیے بننے والے نصیرآباد کے گھر کی تعمیر کا قصہ ہے۔

بلوچستان میں میگا کرپشن میگا کمیشن کی داستانیں بازگشت کر رہی ہیں کیا ہمارے بلوچستان کے تحقیقاتی ادارے پھر بھی خاموش ہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے واضع احکامات کے باوجود وزراء اراکین اسمبلی ہونے والے ٹینڈروں پر اثر انداز ہوتے ہیں احکامات نہ ماننے والے ایکس ای این صاحبان کو تبدیل کر دیئے جاتے ہیں اوپن ٹینڈر نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف حکومت بلوچستان کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ نا تجربہ کار ٹھیکداروں کو ٹینڈر ملنے کی وجہ سے ناقص کام ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جس طرح بولان میں سیلاب کے دوران کمیشن زدہ سڑکوں اور پلوں کا حال ہوا ہے۔

دنیا نے دیکھا ہے جگ ہنسائی ہوئی ہے جب منصوبہ کا 60فیصد کمیشن انکم ٹیکس ٹھیکدار کی بچت میں کٹ جائے گا منصوبوں میں خاک معیاری کام ہو گا بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں میگا کمیشن کا نوٹس لیا جائے منتخب عوامی نمائندوں محکمہ کے آفیسران کی جانب سے بھاری کمیشن لینا ملک دشمنی اقدام ہے ایسا لگتا ہے یہ دہشت گردی کی ایک قسم ہے دہشت گرد دھماکہ خیز مواد سے بلڈنگ اڑاتے ہیں یہ لوگ نا قص میڑیل استعمال کرکے بلڈنگ گراتے اور سڑک تباہ کرتے ہیں ان کے خلاف بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیئے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بلڈنگ پل نی گرے اور نہ سڑک تباہ ہو۔