|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2020

تاریخ انسانیت پر ایک نظر ڈورائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں اہل اور اہل قلم لوگوں نے دلوں پر راج کیاہے۔ اہل قلم نے پوری دنیا میں قلم سے دنیا میں علم، محبت، اخوت و بھائی چارے اور امن و آشتی کا درس دیا۔۔ اہل علم و ادب نے قلم کی روشنی سے دنیا کی تاریکی کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اہل علم و ادب نے وقت کے ظالموں، انسانیت کے دشمنوں، لاقانونیت کے فرعونوں کے خلاف قلم سے جہاد کیا اور کیونکہ اہل حکمت و دانش جانتے ہیں کہ قلم ہر طرح کے ہتھیارسے زیادہ طاقت ور ہے۔ قلم کی نوک کے نیچے سیاہی آ کر روشنائی میں بدل جاتی ہے۔

یعنی ذہنوں کا اندھیرا قلم کی روشنی سے اجالے میں بدلا جاسکتا ہے۔۔ قلم کی اپنی طاقت ہے، سیاہی کی اپنی اندھیروں کی فسادی فوج ہے مگر قلم کی طاقت نے ہمیشہ سے ہی اندھیروں کا سر کچلا ہے۔۔ تلوار و ہتھیار کے زور پر کبھی بھی کسی سے ذہنی طور پر کوئی بات قبول نہیں کروائی جاسکتی۔۔ کوئی بھی چیز دلی طور پر مسلط نہیں کی جاسکتی ہتھیارکے زور پر کسی سے بظاہر طور پر منوائی جاسکتی ہے مگر دلی طور پر وہ کبھی بھی اپنے اوپر مسلط کی گئی سوچ کو قبول نہیں کریگا۔ اگر قلم اورہتھیار کی طاقت کا موازنہ کریں کہ تلوار کی دھار تیز ہے یا قلم کی نوک۔ قلم کو امن کی علامت اور ہتھیار و تلوار دہشت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اگر قلم سے زیادہ تلوار میں طاقت ہوتی تو رب کائنات سروردو عالم کو سب سے پہلے قلم کی بجائے شمشیر اٹھانے کا درس دیتے۔سانحہ تربت میں بھی یہی ہوا، ہتھیار سے قلم کی ترویج و اشاعت، درس و تدریس روکنے کی ناکام کوشش کی گئی ایک بے قصور طالب علم کو اسکے والدین کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔۔ اس سانحے کو گزرے پندرہ دن ہونے کو ہیں مگر قوم اس سانحے کو بھول نہیں سکتی اور ہمیشہ اس معصوم شہید کی قربانی کو یاد رکھے گی کہ انھوں نے روشنی کا سفر شروع کیا تھا۔۔ اور انھی کی قربانی کے نتیجے میں پوری قوم اس معصوم طالب علم کے قتل کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے،تیرہ اگست کو تربت کی ایک سڑک پر جواں سال حیات بلوچ کو جس طرح مارا گیا اور اس کے والدین جس کیفیت میں لاش پر سایہ فگن ہیں، اسکی تصویر سوشل میڈیا پر صارفین کی آنکھوں کو آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔

اس وقت بلوچستان کا سب سے مظلوم طبقہ نہ تو لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں اور نہ ہی عدم تحفظ و محرومی سے دوچار نوجوان نسل۔ سب سے قابلِ رحم وفاق نواز بلوچستانی سیاستدان ہیں۔ مگر وفاق نے ان کی سیاسی لاج رکھنے کے بجائے انہیں اپنوں ہی کی نظر میں دھوبی کا کتا بنا دیا جن کو بلوچستان کے لوگوں کا دکھ درد تک کا احساس نہیں ہیآج بھی دنیا کا گلوبل ویلج سے گلوبل سٹی کا سفر قلم کے زور پر ہورہاہے۔ دنیا کے عظیم ترین معاہدے ہتھیار سے نہیں تحریر کیے گئے بلکہ قلم کی سیاہی سے۔بظاہر قلم اور تلوار میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ تلوار کے سامنے قلم قطعی بے حقیقت سی چیز نظر آتی ہے۔

لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قلم اپنی پوشیدہ طاقتوں کے ساتھ تلوار کے مقابلے میں ہمیشہ افضل و برتر رہا ہے۔ قلم ہی سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اگر جنگجو کا ہتھیار تلوار ہے تو عالم، فاضل، صاحب عالم کا ہتھیار قلم ہوتا ہے۔ جس نے قلم کو ہاتھ میں لیا اسے عزت اور دولت ملی اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ ناکام و نامراد رہا اورترقی عزت و دولت ہر شے سے محروم ہو گیا۔ دنیا کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک میں افراد نے علم حاصل کیا وہ تحقیق میں لگے رہے۔طاقت و ترقی کے لیے بھی علم کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔

قلم کے نقش صدیوں تک محفوظ رہتے ہیں۔ قلم کے کارناموں سے ہزاروں سال تک علم کے شیدائی علم سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ تلوار نے ظلم کو دبایا اور ظالموں کے سر قلم کیے۔ تلوار انصاف کے لیے بھی چلتی ہے اور ظلم کے لیے بھی لیکن قلم کے حصے کا دوسرا نام علم ہے۔ قوموں کو مہذب بناتا اور ظلم نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ علم حق و انصاف کا علمبردار ہے اور ہرظالم کو ہمدردی کا سبق دیتا ہے۔ جب ہم قلم اور تلوار کا موازنہ مختلف پہلوؤں سے کرتے ہیں تو مشابہت کے میدان میں قلم کو آگے پاتے ہیں۔دعا ہے رب دوجہاں سے کہ ہمیں ہتھیار سے زیادہ قلم کی طاقت عطا ء فرمائے۔