|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2020

میں بوجھل قدموں اور دل میں ایک کرب کی کیفیت لئے نال کی طرف جارہا ہوں یہ کیسی ملاقات ہے کہ میر کے پاس جاتے ہوئے میں غمگین ہوں۔ہر ملاقات کی طرح بہت سے سوالات دل و دماغ میں ہیں کچھ پوچھنا ہے کچھ سمجھنا ہے اور پھر ایک ڈانٹ بھی کھانی ہے اور پھر میں قبر کے سرہانے کھڑا ہوگیا۔سلام کیا،حال پوچھا،خاموشی تھی۔ میں نے پوچھا میر حاصل کیا لاحاصل رہا جس مزاحمت اور جنگ میں ڈٹے رہنے کا یقین مجھے دلاتا رہا کیا وہ یہ بازی ہارگیا۔میرے سوالوں پر طویل خاموشی ہے میں ایک طویل خاموشی کے بعد ایک مسکراہٹ کا منتظر ہوں اور اسکے بعد ایک ایک کرکے گتھیوں کو میر کب سلجھائے گا۔

میں اپنی جگہ کھڑا ہوں لیکن اس بار میر خاموش ہے اور یہ خاموشی میرے لئے ناقبل برداشت ہے۔اس مجلس میں ہم ہمیشہ کی طرح تنہاء ہیں لیکن وہ بے تکلفی نہیں کہ کوئی ڈانٹ پڑے اور میرے سوالوں کا جواب وہ اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق دیں۔تھک ہار کر بیٹھ گیااور پھر سر اٹھایا اور چل دیا تو کچھ فاصلے پر میر غوث بخش بزنجو کی لائبریری اور انکی قبر تھی ۔ بابابزنجو کی قبر پر نگاہ پڑی تواس قبر کا کتبہ گویا ہوا کہ میں نے وطن اور اہل وطن سے عشق کیا کہاں تک کامیاب رہا اسکا فیصلہ تاریخ کریگی۔ جس کے بعد لائبریر ی چلا آیا یہاں ایک کونے میں ایک تصویر پرنظر پڑی جس میں میرحاصل خان مسکرا رہا ہے اور مجھے جواب مل گیا۔

میں الوداع کئے بغیر اٹھ گیا کیونکہ ہمارے تعلق میں لفظ الوداع نہیں تھا پھر ملیں گے کا کہہ کر چند قدم چل کر لائبریر ی سے باہر آیا اور اسکی گھاس پر بیٹھ کر نال کی اس سر سبززمین کو کریدنے لگا اور پھر اس مٹی کو کریدتے کریدتے وہ یادیں تازہ ہوئیں جو میرے اور میر حاصل خان کے پہلے اور آخری رابطے کی ہیں۔ کراچی پریس کلب کے ٹیرس پر کھڑا تھا جہاں میر حاصل خان نواب اکبر خان بگٹی کے مارے جانے کیخلاف پریس کانفرنس کیلئے پہنچے تھے انکے ساتھ انکے سیاسی رفقاء موجود تھے میں نے سلام کیا جواب دیتے ہوئے کہا تم پہلے پہنچ گئے،انکا خیال تھا کہ میں انکے دوست اور اپنے چاچارجب علی رند کے کہنے پر یہاں پہنچاہوں۔

میں نے بتایا میں آپکی کوریج کیلئے پہنچا ہوں۔ کیا مطلب تم نے صحافت شروع کردی ہے بول مجھ سے رہے تھے دیکھ رجب علی رند کی طرف رہے تھے،میں نے اثبات میں سر ہلا دیا میری پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے آگے بڑھے اور جنرل مشرف کے نواب اکبر خان بگٹی کیخلاف اقدام پر دھواں دھار پریس کانفرنس کردی جو کچھ میر حاصل خان نے اس دن کہا وہ سب کچھ کئی سالوں تک بلوچستان میں مجھے نظر آتا رہا۔ میر حاصل خان اپنی سیاسی زندگی میں اپنے والد میر غوث بخش بزنجو کے نقش قدم پر چلتے رہے، میر حاصل خان کے مخالفین کہتے تھے وہ بابا بزنجو کی سیاست کے وارث نہیں تھے۔

اسکا دعوٰی تو میر حاصل خان نے اپنی پوری زندگی میں نہیں کی وہ خود کو فکر بزنجو کا ایک سپاہی مانتے تھے۔میر غوث بخش بزنجو نے قیام پاکستان سے قبل بحیثیت وزیر اعظم ریاست قلات پاکستان سے الحاق کی مخالفت کی لیکن الحاق کے بعد پاکستان کیخلاف ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ عدم تشدد کے فلسفے پر پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچوں کی شناخت سماجی اور آئینی حقوق کیلئے جدوجہد کی اور ون یونٹ توڑ دو کی تحریک میں کامیابی اور انیس سو تہتر کا متفقہ آئین اسکی مثالیں ہیں اور اس عدم تشدد اور آئینی اور جمہوری جدوجہد کا نام ہی فکر بزنجو ہے اور ناقدین یاد رکھیں جب وہ میر حاصل خان کو میر غوث بخش کا سیاسی وارث نہ ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔

دو ہزار چھ کے بعد ان ناقدین نے اپنے بیانیئے ہر گزرتے وقت کیساتھ بدلے ہونگے لیکن دو ہزار چھ میں نواب اکبر خان بگٹی، میر حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹر مالک سے پوچھا آپ اس صورتحال میں کیا کرسکتے ہیں تو ڈاکٹر مالک اور میر حاصل خان دونوں نے بیک وقت جواب دیا کہ ہم سیاسی جمہوری طریقہ کی کسی بھی جدوجہد کیلئے تیار ہیں لیکن ریاست کیخلاف ہتھیار نہیں اٹھائینگے۔یہ فکر بزنجو ہی تھا میر حاصل خان نے اپنے والد کی طرح وہ کامیابی حاصل کی جسکی مثال اٹھارویں آئینی ترمیم ہے اسکے لئے انہوں نے جو جدوجہد کی وہ آج انہیں انکی وفات کے بعد جمہوریت کا ایک اہم سپاہی بنا گئی۔

آج جو حقوق اٹھارویں آئینی ترمیم میں بلوچستان کو ملے ان پر میر حاصل خان بزنجو کے کردار کو بھلانا مشکل ہے۔ون یونٹ کے ٹوٹنے کے بعد جن حقوق کے لئے میر غوث بخش بزنجو نے اپنی زندگی میں جدوجہد کا آغاز کیا تھا وہ حقوق میر حاصل خان بزنجو نے اٹھارویں آئینی ترمیم میں حاصل کئے۔چند سال قبل جب میر حاصل خان بزنجو وفاقی وزیر تھے میں ایک اشتہار لیکر انکے دفتر پہنچا ایک خالی آسامی کے اشتہار پر انگلی رکھ کر انکی طرف دیکھنے لگا۔میر حاصل خان نے سوال کیا کس کواس آسامی پر تعینات کروانا ہے۔

میری نگاہوں کے اشارے پر انہوں نے اس اشتہار کو کوڑے دان کی نظر کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو جیسے میں میدان سیاست میں لڑ رہا ہوں تم نے صحافت کے میدان کو نہیں چھوڑنا اب اس پر مزید گفتگو کی تو اس بلند و بالا عمارت پر الٹا لٹکا دونگا اور میں تادم تحریر انکی ہدایت پر عمل پیرا ہوں، اور پھر ایک دن سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد میر حاصل خان کی دھواں دھار میڈیا ٹاک نے حیران کردیا اور فون ملاتے ہی میں گویا ہوا، میر یہ کیاکردیا کیا بول دیا اسکے نتائج کیا ہونگے؟ فون پر میں بڑی تیزی سے بول رہا تھا اور آگے سے ایک گہری خاموشی تھی، پھر مجھے احساس ہوا کہ میں کچھ زیادہ جذباتی ہوگیاہوں۔

یہ فون کال میں نے میر حاصل خان بزنجوکو اس دن کی تھی جس دن چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔ میرے سوالوں کی بوچھاڑ پر میر حاصل خان نے کہا،جو تھا جو محسوس کیا وہ کہہ دیا، اسکے جو بھی نتائج ہوں مجھے منظور ہیں۔ کینسر کی تشخیص سے قبل میر حاصل خان صادق سنجرانی کو چئیرمین کے عہدے سے ہٹانے کی تیاری کرچکے تھے،اس دوران کچھ ایسا بھی ہوا جس سے میں براہ راست باخبر تھا۔ سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کی باتوں نے زور پکڑ لیا تھا اور اچانک کراچی کی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت نے فون کرکے میر حاصل خان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

اور میں نے میر حاصل خان کو بتایا کہ فلاں شخص نے ملنا ہے اور دو روز بعد ہم کراچی پریس کلب کے سامنے ملے اور پھر اس شخصیت سے ملنے پہنچ گئے کچھ اشاروں اور کچھ واضح پیغامات میں عدم اعتماد کے معاملے کو بھول جانے کا کہا گیا۔میر حاصل خان بزنجو نے واضح جواب دیا کہ اگر اپوزیشن نے مجھے نامزد کیا تو پھر میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ جب ہم اس شخصیت سے مل کر نکلے تو میر حاصل خان نے مجھے پریس کلب اتاردیا اور وہ میرے اسرار پر بھی پریس کلب نہیں رکے اور چلے گئے۔پھرچند دن بعد میر حاصل خان کو کینسر کی تشخیص ہوئی تو میں آغا خان ہسپتال پہنچا تو مجھے دیکھ کر مسکرائے۔

میں نے کہا یہ چند دنوں میں کیا ہوگیا،کہا اس دن اس ملاقات سے قبل ابتدائی تشخیص ہوچکی تھی لیکن اس پر مزید ٹیسٹ کے نتائج اب آئے ہیں اور وہ اسٹیج فور پر تھے۔ میں نے پوچھا پھر سینیٹ کی تحریک عدم اعتما د کا کیا ہوگا پورے عزم سے گویا ہوئے کینسر کو ہرائینگے چئیرمین کو گرائینگے لیکن میر حاصل خان کی اس بیماری نے چئیرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کچھ تاخیر کا شکار کردیا اور پھر علاج کے بعد واپس آئے تو پھر سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد بھی آئی اور ناکام بھی ہوئی۔ یہ میر حاصل خان بزنجو کی ناکامی نہیں تھی بلکہ جمہوریت کی علمبردار بڑی جماعتوں میں بیٹھے بکاؤ سینیٹرز اور انکی قیادت کے منہ پر تمانچہ تھا۔

اس عدم اعتماد سے قبل جب میاں نواز شریف چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے میر حاصل خان بزنجو کو امیدوار بنانا چاہتے تھے میر حاصل خان بزنجو اپوزیشن کو اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے رضاربانی کو متفقہ اپوزیشن کا امیدوار بنانا چاہتے تھے اور ایک بار پھر اپنے دوست رضاربانی کو چئیرمین بنا کر ہاؤس فیڈریشن اور جمہوریت کو بچانا چاہتے تھے تاہم آصف علی زرداری کی ضد اور انکے غیر سیاسی مسائل نے میر حاصل خان بزنجو کی اس خواہش کو ناکام بنایا اور صادق سنجرانی چئیرمین سینیٹ اور سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چئیرمین بن گئے۔

اس دن میر حاصل خان نے سینیٹ میں دھواں دھار تقریر کی اس تقریر میں انہوں نے واضح کہا کہ پیپلزپارٹی یاد رکھے آج ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کامیاب نہیں ہوئے اور اس تقریر میں ایک تاریخی پیغام دیا کہ اسطرح اس ہاؤس کی تذلیل سے حاصل خان بزنجو کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس دن کی یہ تقریراور یہ پیغام جن کیلئے بھی تھا وہ بخوبی واقف تھے کہ حاصل خان فیڈریشن کی کتنی بڑی ضرورت تھے اور انکے انتقال پر سینیٹ میں انوار الحق کاکڑنے اپنی تقریر میں وہ حقیقت عیاں کردی۔ دو ہزار چھ کے بعد بلوچستان کے حالات بدل گئے۔

قوم پرست سیاسی قیادت کے بیانئے میں تبدیلی ہوتی رہی لیکن میر حاصل خان بزنجو کا مؤقف واضح تھا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی مذاکرات ہیں اور وہ یہ بھی برملا کہتے تھے کہ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچ کو اپنے حقوق لینے ہونگے،اس موقف کی بنیاد پر انکی جماعت اور انکے کارکنوں کو بڑی مشکلات پیش آئیں انکے قریبی سیاسی دوست مارے گئے لیکن میر حاصل خان بزنجو اپنے فلسفے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ میری زندگی کی پندرہ سالہ صحافت میں میر حاصل خان بزنجو سے جو قربت رہی اسکی دو بڑی وجوہات تھیں۔

ایک میر غوث بخش بزنجو کو پڑھنا اور انکے ویژن کے بارے میں جاننا، وہ سب کچھ میں نے دیکھا تو نہیں لیکن بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی ایک شبیہہ میں نے میر حاصل خان بزنجو کے اندر ضرور دیکھی اور اسلئے میری اور انکی جو قربت،جو نشستیں تھیں وہ آف دی ریکارڈ ہی رہتیں جہاں بلوچستان سے لیکر عالمی حالات موضوع بحث ہوتے۔یہاں اختلاف رائے بھی ہوتا، تلخی بھی ہوتی تھی لیکن کبھی تعلق میں بگاڑ نہیں آیا اور جو جوابات میر حاصل خان میرے سوالوں کا دیتے یا میری رہنمائی کرتے آنے والے دن،مہینے اور سال انہیں ثابت کرنے لگتے۔

میر حاصل خان بزنجو نے جو سیاست کی اس میں وہ میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ضرور تھے لیکن انہوں نے اپنی شناخت اپنی بی ایس او کی سیاست سے بحیثیت کارکن بنانی شروع کی،وہ بابا بزنجو کے فلسفے پر ضرور چلے لیکن اس کے لئے طویل اور سخت جدوجہد کیلئے اپنے دوست بنائے، اپنے والد کے دوستوں کی مدد سے یہ مقام حاصل نہیں کیا جو سیاسی کارکن یا رہنماء ایک نظریئے یا سوچ کیساتھ میدان عمل میں ہوتا ہے وہ زندگی کی جنگ میں ہار سکتا ہے سیاسی میدان میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ میر حاصل خان میرا سیاسی پیر تھا وہ اس مقام پر بابا بزنجو کاگدی نشین بن کر نہیں پہنچا ایک جہد مسلسل کے نتیجے میں آج وہ میر کاررواں ہے۔

جن لوگوں نے میر حاصل خان پر ہر وقت تنقیدکے نشتر برسائے کہ وہ بابا کی سیاست کے وارث نہیں ہیں،اس بیانئے کا پرچار کرنے والوں نے میر غوث بخش بزنجو کی زندگی میں انکی وفات کے بعد میر حاصل خان کی سیاست کے دوران کب فکر بزنجو کا علم تھاما تھا؟ اسلئے میر غوث بخش بزنجو نے اپنی زندگی میں کہا تھا” وطن اور اہل وطن سے عشق کا فیصلہ تاریخ کریگی“ تو میر حاصل خان بزنجو کی سیاست پر سوال اٹھانے والے اسکا فیصلہ بھی تاریخ پر چھوڑ دیں۔ میر حاصل خان بزنجو کی دو خواہشیں بہت شدید تھیں کہ ایک بار وہ پنجاب کی جیل میں ضرور قید ہواور یہ خواہش پوری نہ ہوئی لیکن انکی دوسری خواہش کا پورا ہونا نہایت ضروری ہے۔

وہ پچھلے چند سالوں سے اسکا پرچار بڑی شدومد سے کرتے تھے کہ فیڈریشن کو بچانے کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور بڑے اداروں کو مل بیٹھ کر ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کرنا ہوگا اسکے بغیر اس بدلتی دنیا میں آگے بڑھنا ممکن نہیں، سیاستدانوں اور اداروں کو اپنے اپنے حدود کا تعین کرنا ہوگا،لگتا ہے یہ کام بہت مشکل ہے لیکن آج نال سے جاتے ہوئے سوچتارہا، میر حاصل خان بزنجو کی رہنمائی بابابزنجو کی قبر اور انکے فکر و فلسفہ و لائبریری نے کی، اسی انداز میں اب ہماری نسل کی رہنمائی ان دو قبروں اور لائبریری نے کرنی ہے۔میر حاصل خان بزنجو اپنے بچپن سے وفات تک جن جن محاذوں پر لڑتے رہے۔

وہاں ناامیدی کفر تھی چاہے وہ پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ ہو یا کینسر کیخلاف جاری انکی جدوجہد،ان سب میں ان کا عزم اور یقین غیر متزلزل تھا۔میں لائبریری کے احاطے سے باہر آگیا۔آج نال میں ان دوقبروں کو دیکھنے کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ بابا کی قبر اور انکی لائبریر ی نے میر حاصل خان بزنجو کی کیسے رہنمائی کی، اب آنے والی نسل اور فکر بزنجو کے کارکنوں کی رہنمائی بھی ویسے ہی نال کی اس مٹی سے ہوتی رہیگی، اب انکے فکر اور فلسفے نے آگے بڑھنا ہے۔اور میں نے دیکھا ایک ننھا سا بچہ ایک کاپی اور قلم تھامے لائبریری آرہا ہے۔
اس بچے کو اس لائبریری کی طرف آتے دیکھ کر میں مطمئن ہوں، قلم لے کر آتا یہ بچہ یہاں سے جب بڑا ہوکر نکلے گا تو فکر بزنجو کیلئے اسکی رہنمائی اسکا قلم،یہ لائبریری اور یہ قبریں کرینگی۔ اس بچے سے کاغذاور قلم لیکر صرف ایک سطرلکھی اور میر کی قبر کے سرہانے پررکھتے ہوئے کہا کہ اب سمجھا کیوں آپ نے سینیٹ میں بڑے اعتماد سے کہا تھا ”ایک ہی تو جان ہے تو لے یا خدالے“فکر بزنجو زندہ رہے گا۔