دنیا میں ہر انسان یا کہ جانور چرند پرند ہو انکی دلی جذبات و خواہشات احساسات کی خوشنمائی ان کیلئے سب سے بڑی چیز انکی آزادی ہے کہ وہ آزاد فضا میں بااختیار طریقے سے معاشرے میں خوبصورت و بہتر زندگی گزار سکیں انہیں ہر چیز انکے مطابق مل جائے یہ تمام جذبات ایک خودمختار ریاست کی کرپشن سے پاک اصل منشور کی عملی حکمت عمل سے ہی ممکن ہوتے ہیں وہ ریاست جو اپنے اندر عدل و انصاف کی امین،بلا تفریق عوام کی خدمت گار ہو لیکن ہم ایسے معاشرے میں، ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں طبقاتی نظام رائج ہے۔
غریب عوام کی ٹیکسوں پر چلنے والے ادارے چند طبقات کیلئے ہیں۔ ملک میں قانون نافذ کرنے والوں سے لیکر سپریم اداروں تک غریب اور امیر کی تفرقات کی بنیاد پر چلتے ہیں ایک ایسا قانون ہے جس کی مثال مکڑی کی جال جیسی ہے چوٹے موٹے مجرم اس میں پھنس کر پھانسی تک چلے جاتے ہیں لیکن پورے قوم کے دشمن جال پھاڑ کر نکل جاتے ہیں جن کیلئے نہ عدالت کے حکم چلتے ہیں نہ کہ دیگر اداروں کی گرفت میں آتے ہیں۔غریب حق کی بات کرے تو ملک دشمن،عدالتوں میں عدم انصاف کے خلاف آواز اْٹھائے توہین عدالت کے زمرے میں انہیں کھڑی سزا دی جاتی ہے۔
اس ملک کے سب سے بڑے دشمن وہ ہیں جو اداروں کو غلط استعمال کرکے لاغر طبقوں کو زیر کرتے ہیں۔اس ملک کو کبھی کسی ریڑھی،ٹھیلے والے نے نقصان نہیں دیا جتنا اس کے اختیار داروں نے دیا۔ مجھے یاد ہے 14 اگست پاکستان ڈے کے دن سوشل میڈیا پر میری نظر ایک تصویر پہ پڑی ایک انتہائی غریب بچہ جن کے پاؤں میں جوتے، نہ بدن پہ اچھے کپڑے تھے،انتہائی غربت کے مارے جسمانی طور پر لاغر چہرہ پہ دھندلاہٹ چھائی ہوئی تھی،پھر بھی انکے ہاتھ میں پاکستان کا سبز وسفید پرچم تھا انتہائی جوش وجذبے کا اظہار کررہا تھا،مختلف آزادی کے نغمے گا رہا تھا۔
اس تصویر نے میرے دل میں حب الوطنی کے جذبات کو دوبالا کردیا۔بار بار مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ ہمارے بچے چاہے انکا تعلق کسی بھی مذہب،کسی بھی قومیت سے ہووہ اپنے ملک کی آزادی پر فخر کرتے ہیں،اس ملک کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اسی امپریشن کو برقرار رکھنے کیلئے عوام کو ساتھ لے کر چلیں لیکن کہاں۔ جب ہم پاکستان کے اداروں کی لاتعلقی کودیکھتے ہیں تو سارے جذبات ٹوٹ جاتے ہیں کیا وجہ ہے کہ ادارے ملک کے متاثر غریب غرباء لاغر طبقے کو ساتھ لے کرچلنے کو تیار نہیں،ساری دْنیا کی خبر رکھنے والے کیوں انتظامی نظام کی بربادی پر خاموش ہیں۔
کب تک سوالوں کے جواب روکے جاسکتے ہیں کب تک غریبوں کے حقوق کو غضب کیا جاسکتا ہے کبھی کبھی ہم خود سوالوں کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوتے لیکن حقیقت جب نظر آتی ہے تو سوال اُٹھتے ہیں۔ ایک روز جب میرا واسطہ اس ملک کے ایک بڑے ہسپتال سے پڑا جو پورے صوبہ کا دل ہے جس کے بارے میں اتنی تعریفیں کہ ہسپتال میں ہر طرح کا علاج ممکن ہے یہاں پتھروں کو سانس دی جاتی ہے انسانی جسم میں ایسا کوئی حصہ نہیں ہے کہ یہاں جس کی علاج کیسہولیات میسر نہ ہوں،یہ ایک سرکاری صوبے کی سب سے بڑی ہسپتال ہے۔
اس ہسپتال میں غریب وامیر کے درمیان تفرقات کی کوئی گنجائش نہیں،صوبے کا تمام بجٹ اس ہسپتال میں انسانی زندگی کو بچانے کیلئے خرچ ہوتی ہے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی،ہر ڈاکٹر پیرامیڈیکس اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کررہے ہیں۔ لیباٹری سے لیکر ہر شعبہ الرٹ ہیں مہنگے سے مہنگے ترین ادویات یہاں موجود ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس مکر و فریب کے آگے بہت سے محاورے غلط نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ مختلف کاروباری منڈیوں میں بولا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کے صاحب اقتدار اداروں کے افسران کے جھوٹ نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
اور سب سے زیادہ جھوٹ غیر سیاسی غیر جمہوری وزیر،کرپشن مافیاز اداروں کے ہیڈ جو ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر پورے قوم پورے ملک کو دھوکا دے کر بولتے ہیں۔ ایک بھی غریب آدمی کو ہسپتال سے لیکر ہر سرکاری ادارے میں کوئی ریلیف نہیں ملتا جن کے وہ جائز حقدار ہوتے ہیں۔ ہسپتال میں ہر سہولت کجا، غریب آدمی زندگی اور موت کے درمیان کیوں نہ ہو، انہیں سفارش کے بغیر داخل بھی نہیں کیا جاتا، عام آدمی کیلئے بیڈتک ملنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہے۔ غریب عوام کیلئے بہ مشکل ایک ڈرپ بھی نہیں ملتا جبکہ باقی میڈیسن تھیلیوں میں بھر کر بااثر لوگوں کے گھروں میں سبزی کی طرح پہنچائے جاتے ہیں۔
ایک حقیقی واقعہ، ڈیرھ مراد جمالی کے ایک غریب عورت کو میں نے دیکھا کہ وہ بستر پر لیٹ کر زندگی کی نہیں بلکہ غربت کی سانسیں گن رہی تھی،اس عورت کا کوئی بھائی، نہ والدین نہ کوئی وارث تھا اسکی تیمارداری انکی شادی شدہ بیٹی کررہی تھی جو ایک مزدور کے گھر بیائی گئی تھی۔سول ہسپتال کے ڈاکٹر جب انکے والدہ کا پرائیویٹ لیب کیلئے ٹیسٹ کروانے کی پرچی دیتے تھے تو وہ ڈاکٹروں سے پوچھتی تھی کہ خرچہ کتنا ہوگی،ڈاکٹر انہیں رقم بتا دیتے تھے تو سن کر انکے چہرے پہ زردی چھا جاتی تھی جب وہ پیسے نکال کر گنتی، میں نے دیکھا کہ انکے تمام نوٹ پانچ اور دس دس کے تھے ایسے نوٹ جو آپس میں لپٹے ہوئے تھے۔
جو کہ انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر جمع کئے تھے،انتہائی پریشانی کے عالم میں وہ ٹیسٹوں کے ساتھ میڈیسن کے پیسے ادا کررہی تھی۔ ان دنوں اس نے غریبی کی وجہ سے خود کھانا کبھی کھائی تو کبھی نہیں کھائی، ایک عورت جو ہمارے معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے اسلام اور ہمارے معاشرے میں انکا عظیم مقام ہے کہ الفاظ انہیں بیان کرنے سے محتاج ہیں۔اس ملک کے اداروں نے انہیں فرش پر بیچ مردوں کے رات بھر سونے پر مجبور کردیا ہے جس کی ایسی حالت کی نہ اسلام اجازت دیتی ہے نہ کہ ہمارا معاشرہ۔
ہسپتال کی چھپائی گئی میڈیسن کی ایک غریب تک عدم رسائی کی وجہ سے ایک قابلِ علاج مریضہ بے موت مرجاتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود،انکی معاشی، معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کیا کیا ہے۔اس کے برعکس اس نے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں لاکھوں ڈالر پہ گروی رکھا ہے کہ ہم اپنے ملک کے اندر رہنے والے ہر فرد کی اور اپنے ملک کی معاشی معاشرتی حالات کو سدھاریں گے اس غرض سے کہ مختلف سیکٹرز میں کام کرکے ملک کے ہر شہری کو سہولت دیں گے حقیقتاً کہانی اسکے برعکس ہے۔
اس ملک کے ٹیکس کے حقدار یہی غریب عوام ہیں جو ملکی اداروں سے مایوس ہیں۔ افسوس اس ملک کے ادارے غریبوں کو ملنے والی ریلیف کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی حقوق کی پامالیاں ہوئی ہیں، عام افراد کے خیالات بھی آئین وقانون کے خلاف گئے ہیں۔ اگر ایک عام آدمی کو ملک کے اداروں سے برابری کی بنیاد پر سہولیات، روزگار،تعلیم،صحت مل جائے تو کیا سردردی کہ وہ بندوق اٹھا کر مزاحمت کا راستہ اختیار کرے۔اگرملک کو چلانے والے ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو اس ملک کے ہر شخص کو انکا حق دینا ہوگا ملک کے سب سے بڑے دشمن وہی ادارے ہیں جو خود کو ملک کا خیر خواہ سمجھتے ہیں اور انہی کے مصنوعی سیاستدان ہیں جو الیکشن کے وقت نمودار ہوتے ہیں جو عوام کے بنیادی جائز حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ملک کی بربادی کے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔