|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2020

زندگی کی نمو میں تعلیم کا اہم کردار ہے مگر ہمارے ملک میں زندگی کی اس نمو کو قابوکرنے کیلیے ہمہ جہتی کوششیں اس امر کی غمازہیں کہ ہم اب بھی تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی اسے غریب طبقات تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ ہماری تعلیمی منصوبہ بندی مکمل طور پر طبقاتی بنیاد وں پر استوار ہوچکی ہے حتیٰ کہ ہمارے ملک میں صوبوں کی طبقاتی تہیں پائی جاتی ہیں۔اگرکسی کویقین نہیں آرہا تو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے سامنے لگے احتجاجی کیمپ کو ہی دیکھ لیں جہاں بلوچستان کے طلبا آہ و بکا کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے، وہ آپ کو چیخ پکار کرتے ہوئے ملیں گے۔

وہ آپ کو یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرو، ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے،بلوچستان اورسابقہ فاٹا کی مختص نشستوں پرسکالرشپ بحال کیا جائے۔مگر کوئی انہیں سن نہیں رہا ……بھلا!!کوئی کیوں سنے؟ یہ فضل الرحمان،نواز شریف،باجوہ اور زرداری تھوڑی ہیں جن سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے۔بھلا!!ان کی سن کر کون اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گا، البتہ اتنا توکیا جاسکتاہے کہ آپ ان طلبا کے احتجاجی کیمپ میں شرکت نہیں کرسکتے تو تھوڑی سیہمت کامظاہرہ کرکے انہیں اپنی “ٹائم لائن ” پرجگہ دیں۔

اور دنیا کودکھادیں کہ خراب موسم میں ان کا احتجاجی کیمپ وقت کی نارسائی پرسوال اٹھاتا ہوا حکمرانوں کے درو دیوار سے ٹکرا کر ایک زمانے سے راستہ موڑ کر تعلیم کے حصول کی مانگ کررہے ہیں، کیا یہ مانگ “غیرقانونی ” ہے کیا یہ مطالبات “غیرقانونی ” ہیں۔کیا یہ خواہش ریاست کی سلامتی پر آنچ ڈال رہی ہے؟اگر نہیں توانہیں میڈیائی “بلیک آؤٹ” کا سامنا کیوں ہے؟

ذرا!!سوچیئے

اس احتجاج کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ ان طلبا نے بلوچستان کے حکام بالا سے بات کی، انہیں اپنے تحفظات پیش کیے مگر ناکام لوٹے۔ہارے ہوئے سکندر کی طرح انہوں نے گھر بیٹھنے کی بجائے وی سی سے ملاقات کی، انہوں نے بھی جواب دے دیا، پھر طلبا نے سیاسی رہنماؤں سمیت ہرطبقہ فکر سے سکالرشپ اور مخصوص سیٹوں کی بابت بات کی مگر ناکامی ہاتھ آئی البتہ ملک کے سب سے بڑے ایوان میں یہ مسئلہ زیربحث رہا جسے قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا گیا لیکن وہاں یونیورسٹی نے اخراجات کا ڈھنڈورا پیٹ کر کہا کہ طلبا امسال سے فیس ادا کریں گے اور کوئی چارہ نہیں۔

وہاں سے طلبا مایوس ضرور ہوئے مگر انہوں نے گھر بیٹھنے کی بجائے کچھ کرنے کی ٹھانی،یوں یہ طلبا بلوچستان سے مسافت کرتے ہوئے آج ملتان کے سڑکوں پرنکلے ہیں کیمپ لگایا ہے۔۔حالانکہ آج کل جامعات بند ہیں مگر انہوں نے گھربار اور آرام ترک کرکے اپنے کل کے مستقبل اورساتھی طلباء کے سکالرشپ کی بندش کے خلاف محاذ پہ ڈٹے رہنے کو ترجیح دی۔انہوں نے اعلان کیا تب تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک نئی پالیسی کو واپس نہیں لیا جاتا۔تب تک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہیں گے جب تک پرانی پالیسی بحال نہیں کی جاتی۔

آخر میں حکام بالا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پرسنجیدگی کا مظاہرہ کریں خاص کر میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے چانسلر،گورنر پنجاب چوہدری سرورصاحب سے اپیل کرتاہوں کہ وہ طلبا کے مطالبات پر توجہ دیں اور دوسرے صوبوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدہ کو پورا کریں اور احتجاجی طلبا کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کرتاہوں۔
مندرجہ بالا تحریرکے لکھنے کے بعد میں نے یہ خبر سنی ہے کہ ان طلبا کو چیف سکیورٹی آفیسر کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں جس سے معاملات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

بقول شاعر
یہ عہدستم سلسلہ وارکہاں تک؟
رستے میں اندھیرے کی یہ دیوارکہاں تک؟
اے صبح ِتومیرے دیس میں آکرہی رہیگی
روکیں گے تجھے شب کے طرف دارکہاں تک؟