پاکستان میں سیاستدانوں کا بیماریوں میں مبتلا ہو کر بیرون ملک(سپیشلی لندن) جا کر علاج کروانا کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کئی سیاستدان واقعتاً بیمار ہوئے اور علاج کیلیے انہوں نے ترقی یافتہ ملک کے بڑے ہسپتالوں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ فہرست صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس فہرست میں فوجی جنرلز، ججز، بیوروکریٹس، سیاستدان اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اس ڈرامے بازی میں ن لیگ کا کوئی ثانی نہیں احتساب اور جیل کے وقت بیمار ہو جانا۔
وطن عزیز کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی مثال سامنے ہے وہ ایک مہلک مرض کا شکار تھے جس کا علاج اس وقت پاکستان میں موجود نہیں تھا کئی دوستوں، سیاسی رہنماؤں کے کہنے کے باوجود بیرون ملک کے مقابلے پاکستان میں علاج کروانے کو ترجیح دی اور پاکستان کے معالج خانوں میں ہی ان کا علاج کیا گیا اس فیصلے کی واحد وجہ بانی پاکستان کی اصول پسندی، وطن سے محبت تھی جو شاید ہمارے آج کے حکمرانوں میں بالکل ناپید ہے۔ہمارے ہاں سیاستدان جیل جانے سے پہلے یا جیل جانے کے فوراً بعد بیمارے پڑجاتے ہیں۔
اس کو سیاستدانوں کی چالاکی سمجھا جائے یا کمزوری پاکستانی عوام رہنماؤں پر مر مٹنے والی قوم ہے فرق بالکل نہیں پڑتا بلکہ نیب پیشی پر جانے کیلیے ڈرامے رچائے جاتے ہیں تبصرے گاڑے جاتے ہیں انتقامی کاروائیاں، ناکام حکومت، احتساب صرف ہمارا،فلاں ٹھیک ہے صرف ہمارے لیڈر چور ڈاکو لٹیرے ہیں۔اتنی بے حسی سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود بھی حقیقت کو جھٹلانا افسوس! جس بھی سیاسی رہنما کو جیل ہوتی ہے یا جیل جانے کا خدشہ ہوتا ہے وہ بیمار ہوجاتا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف، ن لیگ کے حق میں برسنے گرجنے والے نہال ہاشمی، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، پیپلز پارٹی کے رہنماء شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، سابق صدر آصف زرداری مختلف اوقات میں جیل جاتے ہوئے یا جیل جانے کے بعد بیمار پڑ چکے ہیں۔
اب الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا میں میاں محمد نواز شریف صاحب کی وطن واپسی، بیماری اور گرفتاری کا معاملہ زور و شور کے ساتھ زیر بحث ہے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایوان فیلڈ، العزیزیہ ریفرنس اور فلیگ شپ ریفرینس میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کو سرنڈر کرنے کا حکم دیتے ہوئے 10 ستمبر تک پیش ہونے کا آخری موقع دیا ہے کتنا قابل تعریف کام ہے اگر عمل ہوتا ہے تو، مقدمات کی پیروی کیلئے نواز شریف کو خود عدالت میں پیش ہونا پڑیگا۔
اگر وہ پیش نہ ہوئے تو عدالت ان کو مفرور قرار دے کر شخصی ضمانت دینے والے چھوٹے میاں شہباز شریف کو تین سال کی سزا سنا سکتی ہے یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 29 اکتوبر 2019 کو آٹھ ہفتوں کیلیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اس فیصلے میں عدالت نے یہ شرط عائد کی تھی کہ اگر آٹھ ہفتوں میں علاج ممکن نہ ہو سکے تو ایسے میں عدالت مزید توسیع کیلیے پنجاب حکومت سے درخواست کرے گی۔16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ میں شہباز شریف نے عدالت میں انڈر ٹیکنگ دی کہ وہ نواز شریف کی وطن واپسی کے ذمہ دار خود ہونگے۔
نواز شریف پر بدعنوانی کے مختلف مقدمات کے باعث ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھا جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے تھے۔اسی طرح 23 ستمبر 2019 کو شہباز شریف کی ذاتی ضمانت پر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیاگیا۔ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے انھیں بیرون ملک لے جانے کیلیے قطر کے شاہی خاندان کی وی آئی پی فضائی کمپنی قطر امیری فلائٹس کی ایمبولینس لاہور آئی اور وہاں سے پرواز اور دوحہ میں مختصر قیام کے بعد لندن پہنچی۔
ضمانت کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کے وکلا نے ضمانت میں مزید توسیع کیلیے پنجاب حکومت کو درخواست دی جس پر پنجاب حکومت نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا۔بورڈ نے نواز شریف کے وکلا ء سے ان کے علاج سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کیں، بورڈ نے ان تمام میڈیکل ریکارڈز کا جائزہ لینے کے بعد نواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع سے متعلق درخواست مسترد کر دی۔ وزیراعظم کے مشیر کے مطابق نواز شریف کے علاج کا کوئی ریکارڈ یا دستاویزات نہیں دی گئیں کیونکہ لندن میں میاں نواز شریف کو ایک ٹیکہ بھی نہیں لگا۔
یہ تو حقیقت ہے کوئی ملزم کتنا ہی طاقت ور ہو لیکن وہ ریاست یا قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا،دیرسویر اسے قانون کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا ہے۔ اگر میاں میاں نواز شریف صاحب واپس نہ آئے تو حکومت پاکستان کے پاس مختلف آپشن ہیں جن کو استعمال کرکے ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے۔ ان میں سب سے آسان اور ن لیگ کے کیلیے سودمندآپشن یہی ہے ان کی بقا کی سیاست کیلیے بھی فائدہ مند ہے کہ میاں نوازشریف صاحب خود واپس آنے کا فیصلہ کرلیں اور کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی سے پہلے پاکستان پہنچ جائیں۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت پاکستان برطانیہ سے درخواست کرے گی اور کہے گی کہ یہ چار ہفتوں کیلیے علاج کی غرض سے لندن تشریف لائے تھے یہ سزا یافتہ مجرم ہیں ان پر عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں اسلیے انہیں واپس بھیج دیں لیکن یہ طویل اور لمبا پراسس ہے کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں اسی وجہ سے اسحاق ڈار کو واپس لانے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں تھیں۔تیسرا آپشن، انٹرپول کے ذریعے بھی واپس لایا جاسکتا ہے حکومت انٹرپول کو باور کرائے گی کہ میاں صاحب عدالتی مفرور ہیں وہ اشتہاری ہیں۔
لیکن پاکستان آ کر عدالتوں کا سامنا نہیں کر رہے یہ بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ انٹرپول اس کام میں سیاسی کام کو بھی مدنظر رکھے گی۔چوتھا اور آخری آپشن جو ن لیگ کیلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے وہ یہ کہ عدلت ضمانت دینے والے شہباز شریف کو بلا کر پوچھیں گے کیونکہ میاں نواز شریف کی واپسی پر شخصی ضمانت ان کے چھوٹے بھائی نے ہی دی تھی کہ وہ چار ہفتوں میں صحت یابی کے بعد وطن واپس آنے کے پابند ہوں گے اگر نواز شریف واپس نہ آئے تو میاں شہباز شریف کی طرف سے دی گئی شخصی ضمانت کو ختم کر سکتی ہے اور ان کو سزا بھی ہو سکتی ہے اس طرح وہ سیاست سے نااہل بھی ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔