|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2020

لکھنے کا بالکل دل نہیں تھا، میں نے تو آرام سے موبائل اور اپنے پسندیدہ ٹی وی شوز دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک آرٹیکل نظر سے گزر گیا……. خواجہ سرا سے متعلق تھا، ان کی کہانی تھی اور وہ تمام عوامل جو انہیں وہ بننے پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں بننا چاہتے…….کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں،…………… مجھے ہمیشہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے انتہائی گرے ہوئے لوگ ہیں اور یہی ہماری ناکامی کی وجہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔ بہترین ملک ہوتے ہوئے جو قدرت کے خزانوں سے مالامال ہے۔۔۔۔۔ اور بہترین امت ہوتے ہوئے بھی ہم آج کیوں رسوا ہیں کیونکہ ہم میں اخلاقیات نہیں ہے۔۔۔۔

جسے نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔۔۔۔۔ میں کہتی ہوں کچھ بڑا مت کیجئے……. نہ فتح کیجئے دنیا… نہ ٹیکنالوجی کے کمالات دکھائیں …… نہ کیجئے ہمارا نام روشن۔۔۔۔ بس مہربانی ہوگی انسان کو انسان سمجھ لیجیے اور اسکی عزت کیجئے……. کمال ہو جائے اگر یہی خود کو اور اپنے بچوں کو سکھا دیجئے……………….. سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم خود گناہوں سے لدے ہوئے ہونگے مگر اگر ہم کسی کی ذرا سی غلطی بھی دیکھ لیں تو بس بھئی اب تو اللہ اسے جہنم میں بھیجے گا یا نہیں مگر ہم تو اسے اسی وقت جہنم واصل کریں گے اور آگ میں جلائیں گے۔۔۔بھئی ہم تو ایسے ہی ہیں۔۔۔۔

ہم تبدیلی چاہتے ہیں اور ایسے کہ ہم رات کو سوئیں اور صبح اٹھیں تو انقلاب آ جائے……. دنیا یکسر بدل جائے…سب سیٹ ہو جائے……. اب ایسا کہاں ہوتا ہے……. سیانے کہتے ہیں پتر کسی چیز کو بنانے میں عرصہ لگتا اور خراب کرنے میں ایک لمحہ…….. اور ہم ان لمحوں میں روز اضافہ کرتے ہیں …………مجھے کوئی لمبی تقریر نہیں کرنی جی…… جانتے ہیں آپ کو سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ……… میں تو بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم ساری زندگی خواہش کرتے ہیں کہ کاش میں کوئی بڑا کام کر جاؤں۔تاریخ بدل جاؤں۔۔۔۔مگر اس کیلیے کوئی بڑا موقع چاہیے مگر عام طور پر وہ ہمیں نہیں ملتا اور ہم کچھ نہیں کرتے۔۔۔۔۔

میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتی ہوں ہمیں زندگی میں کچھ بہت بڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور کیا فائدہ اس بڑے کام کا جو مجھے یہ نہ سکھا پائے کہ انسان کو انسان سمجھنا ہے۔۔۔۔۔ ہم نے معاشرتی رتبوں کو پیمانہ سمجھتے ہوئے انسانوں کے معیار بنا دیے ہیں اور اب ہم ان سے اسی حساب سے سلوک کرتے ہیں اور عزت دیتے ہیں۔۔۔اگر آپ مالدار ہیں تو آپ بہت عزت دار ہیں اور اسی طرح اگر بہت غریب ہیں تو آپ بالکل بھی عزت دار نہیں اور کوئی بھی آپ کو ذلیل کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے رویے معاشروں کو جنم دیتے ہیں۔۔۔۔

ہمارے ہاں ایک خواجہ سرا جس کا اپنی تخلیق میں کوئی عمل دخل نہیں مگر ہم ساری عمر اسے اس بات کی سزا دیتے ہیں۔۔۔۔ہم تمسخر کرتے ہیں۔۔مذاق اڑاتے ہیں۔۔۔۔اپنے پورے انسان ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اسے اور مجھے پیدا کرنے والا ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔ ذرا سوچ کر بتائیں کب آپ نے کسی خواجہ سرا کی عزت کی ہے اور اسے انسان سمجھا ہے۔۔۔۔۔۔یہ سب کرنے کیلیے تو کسی کو قارون کے خزانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ کیا آپ نے اسے یہ حق دیا یہ کہ وہ عام انسان کی طرح معاشرے میں اٹھ بیٹھ سکے۔۔۔۔۔

آپ تو اسے ہمیشہ حقارت سے دیکھتے ہو۔۔۔۔اور اس دنگل میں گرنے پر مجبور کرتے ہو جسے پھر آپ اچھا نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔کیا ہم ہمیشہ لوگوں کو انکی شکل و صورت یا رنگ و نسل کی بنا پر عزت نہیں دیتے ہیں حالانکہ ان میں انکا کوئی ہاتھ ہی نہیں یہ سارا معاملہ تو اوپر والے کے اختیار میں ہے۔۔۔۔وہ انسان کو جیسا چاہے اور جہاں چاہے تخلیق کرے۔۔۔۔۔تو پھر میں اور آپ اسکی تذلیل کرنے والے ہوتے کون ہیں۔۔۔۔۔۔ ادھر دنیا بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے۔۔۔۔۔اور ہمارے مسئلے کیا ہیں کہ فلاں کالا ہے، گورا ہے، لمبا ہے، پتلا ہے۔۔۔۔عورت ہے مرد ہے یا خواجہ سرا ہے۔۔۔

فلاں کا پوتا ہے فلاں کا نواسا ہے۔۔۔۔کیونکہ ہمارے لیے انسان کا انسان ہونا کافی نہیں ہے۔۔۔۔۔ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی انقلاب برپا کریں۔۔۔۔۔دنیا ہمارے گن گائے مگر افسوس کہ ہم کسی انسان کو تھوڑی سی عزت نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی کھسرا کھسرا ہی رہے گا۔۔۔۔۔چھوٹو برتن ہی دھوئے گا۔۔۔۔اسلم لمبو۔۔۔شیدا موٹو۔۔۔۔ اور پروین کالی ہونے کی وجہ سے تا عمر کنواری رہے گی۔۔۔۔۔منحوس اور فلاں فلاں بھی اپنے عہدوں پر براجمان رہیں گے کیونکہ ہم سے کسی کو دو بول عزت نہیں دی جاتی۔

اور پھر ماشاء اللہ پھر ہم نے بچوں کے سامنے ملازمین کو گالیاں دے دے کر ان کی اتنی اچھی تربیت کی ہے کہ وہ ضرور ہماری اس وراثت کو آگے لے کر چلیں گے اور پھر ہم کہتے ہیں آجکل کی اولادیں نافرمان ہیں۔۔۔۔ جناب ہم نے کب کہا کہ آپ کچھ بڑا ہی کریں ہم تو بس اتنی گزارش کرتے ہیں کہ آج سے انسان کو انسان سمجھ لیجیے اور انسانیت کے ناتے ہر فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تھوڑی سی عزت دے دیجئے۔۔۔۔کسی کی تذلیل نہ کیجئے۔۔۔۔یہی چھوٹا سا قدم ہماری نسلیں سنوار دے گا۔۔۔۔۔۔ بس اب ہمیں ذات پر حملہ کرنے والے بھونڈے مذاق ختم کر دینے چاہیے اِنہوں نے ہمارے معاشرے کو کچھ نہیں دیا سوائے نفرت اور حقارت کے۔۔۔۔