تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کی جانب سے ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز سے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ سنبل چوک نزد گورنر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ قائم کیا گیا ہے۔اس سے قبل بھی تحریک کی جانب سے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے باہر کیمپ کئی روز تک جاری رہا،پھر وزراء کی جانب ان سے ملاقاتیں کی گئیں،تسلی وتشفی دی گئی، اس کے بعد بلوچ طالبات کی گرفتاری اور انہیں پولیس تھانہ کے لاک اپ میں قید رکھنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بلوچستان کے عوام نے دیکھیں جو یقیناً انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت بات تھی کہ ان کے ساتھ ہمارے پولیس افسران نے کس طرح بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
یقیناً اس میں ہمارے ہی بلوچ یا پشتون افسران شامل تھے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اب یہ پولیس تقریباً بلوچ اور پشتون آفیسران پر مشتمل نظر آتی ہے لیکن ان کی بلوچ طالبات کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ نا قابل برداشت عمل تھا۔ا س کرب سے نکلنے کے بعد ان طالبات نے اپنے مطالبات کے حق میں کافی صبر و تحمل کا مظاہر ہ کیا لیکن صد افسوس کہ آج انہیں پھر بھوک ہڑتالی کیمپ گورنر اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے باہر لگانی پڑی۔حیرانی اس بات پر ہے کہ ان کے ایسے کونسے مطالبات ہیں جو وزیراعلیٰ بلوچستان کی دسترس سے باہر ہیں یا یہ انہیں حل کرنے کی طاقت و سکت نہیں رکھتے۔
ان کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے یہ طالبات اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر پڑی ہوتی ہیں کیا ہماری غیرت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہماری پچیاں ان پر سڑکوں پر پڑی رہیں۔افوس صد افسوس آج ہماری بلوچی اور پشتون روایات کہاں دفن ہوچکی ہیں وزیراعلیٰ اور گورنر کوئی غیر نہیں بلوچستان کے ہی سپوت ہیں پھر کیوں اس قدر لا تعلق اور بے بس نظر آتے ہیں، کیا یہ طالبات ہماری بچیاں نہیں ہیں یہ بھی مقامی بچیاں ہیں کوئی غیر نہیں پھر ہم اس طرح ا نہیں کیوں اپنے غیر ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
میرے خیال میں اس طرح کی ہڑتال اور سڑکوں پر با پردہ بچیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی کسی اور صوبے میں مثال نہیں ملتی،جس کرب سے یہ بچیاں گزر رہی ہیں اس کرب کے بدلے میں سڑک پر ٹریفک کومعطل کرکے عوام کو جس طرح ذلیل و خوار ہونا پڑ رہا ہے کہ مجھے مجبوراً قلم اٹھانا پڑا۔دو روز سے ٹریفک کو گورنر سیکرٹریٹ کے عقب سے گزارنے کی کوشش ہورہی ہے جس سے شہرمیں ٹریفک کی صورت حال انتہائی دگر گوں ہو چکی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔کوئٹہ کے باسی انڈر پاسز نہ ہونے سے ویسے بھی ذلیل و خوار ہورہے ہیں اب رہی سہی کسر ان طالبات کی ہڑتال اور حکمرانوں کی بے حسی نے پوری کردی ہے کسی ایمر جنسی کی صورت ہو تو مریض ایمبولینسوں میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایک بے نظیر پل کیا بنائی گئی ہے جس کے اوپر چوراہا بنا کر جگ ہنسائی کا ثبوت دیا گیا ہے،چوراہا دے کر پل بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے یہ ہمارے ”لوکل انجیئنروں“ کا عوام کو ”چوراہا“ دے کر ذلیل کرنے کا نادر نمونہ ”گینز بک“ میں لکھنے کے قابل ہے جہاں ہر وقت ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔جام صاحب سے صرف یہ کہتا ہوں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں ان کے پاؤں پڑ کر کہتا ہوں کہ خدارا ان بچیوں کو سنیں،ان کے مسائل حل کریں، ان بچیوں کے سروں پر دست شفقت رکھیں یہ کوئی غیر نہیں ہماری بچیاں ہیں۔
ایسے میں کوئٹہ کے عوام کی حالت زار پر ترس کھائیں،ٹریفک کی بہتری کے لئے شہر میں پل اور انڈر پاسز بنوائیں تاکہ تاریخ میں آپ کو ایک اچھے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے۔آج نواب بگٹی کی شدت سے یاد آرہی ہے جن کی ذاتی کوششوں سے شہر سے ائیر پورٹ اور شہر سے سریاب تک کی بڑی سڑکیں بنائی گئیں اگر اس مرد آہن اور مرد مجاہد نے اس شہر پر توجہ نہ دی ہوتی تو سوچئے کہ ہماری حالت آج کیا ہوتی، اللہ انہیں کروٹ کروٹ اس نیکی کا اجر و ثواب دے۔آمین