بلوچستان میں بارشیں دیگر صوبوں کی نسبت مون سون کے موسم بلکہ پورے سال میں کم ہوتی ہیں جس کے باعث بلوچستان کا وسیع و عریض رقبہ بنجر اور غیر آباد ہے اور صوبے میں پانی کی کمی کا بحران ہمیشہ سے رہتا آ رہا ہے اور ساتھ ہی مون سون کے موسم میں بلوچستاں کے کم علاقے ہی آتے ہیں جبکہ باقی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز گرتی جا رہی ہے بلوچستان کے سوائے نصیرآباد جعفرآباد صحبت پور اور جھل مگسی کے کچھ علاقوں کے باقی تمام تر علاقوں میں آبادی کا انحصار قدرت کے اس رحمت یعنی بارشوں پر ہے۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں زمینوں کی آباد کاری بارشوں کے پانی سے ہوتا ہے اور ان کا گزر بسر بھی اسی پر ہوتا ہے بلوچستان میں موثر منصوبہ بندی اور حکومتی عدم توجہی اور بڑے بڑے ڈیمز نہ بنانے کی بدولت بلوچستان کے پہاڑوں، دریاؤں ندی نالوں کا پانی سندھ کے منچھر جھیل میں جاتا ہے۔ اسی پانی سے سندھ کے بہت سے علاقے آباد ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں نصیرآباد ڈویژن قلات ڈویژن کے علاقے مون سون کے زون میں ہیں اور جب بھی مون سون کی زیادہ بارشیں ہوتی ہیں ان تمام مذکورہ علاقوں میں پانی سیلاب کی صورت میں تباہی لاتی ہے۔
اس سے قبل بھی ان علاقوں میں 2012,2010,1988میں تباہ کن سیلاب آئے تھے جن انسانی جوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ فصلات کو بھی بہت نقصان پہنچا تھا اور ان سیلابوں نے تیار فصلیں تباہ کی تھیں جن سے کروڑوں روپے کے زمینداروں اور کسانوں کو نقصان برداشت کرنا پڑا تھا لیکن اْس وقت حکومتی امداد بھی غریبوں کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ تاہم غریبوں کو خوراک راشن ٹینٹ خیمے حکومتی اداروں سماجی و مخیر حضرات نے کسی حد تک فراہم کردیں تھیں اور 2010 کے تباہ کن سیلاب میں این جی اوز نے یو این ایچ ار کے تعاون سے متاثرین کو ایک کمرے پر مشتمل گھر بھی بنا کر دیا تھا۔
جوکہ ان مشکل حالات میں بہت بڑا ریلیف تھا۔بلوچستان میں حکومتی سطح پر اس طرح کے آفات کی نہ تو پلاننگ کی جاتی ہے اور نہ ہی اس سے بچاؤ کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن اس طرح کے آفات جہاں عوام کیلئے تباہی لاتی ہیں وہاں حکومتی اداروں اور منتخب نمائندوں کیلئے فنڈز کے حصول کا ایک ذریعہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہ فنڈز متاثرین کے بجائے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ حالیہ مون سون بارشیں بھی نصیرآباد اور قلات ڈویژن کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن کے بیشتر اضلاع فلڈ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں مختلف اقسام کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
جس سے زمینداروں اور کسانوں کے مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا تاہم وزیر وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان متاثرہ علاقوں کا گزشتہ ہفتے دورہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود حکومت بلوچستان نے ان متاثرہ اضلاع کو نہ تو آفت زدہ قرار دیا ہے اور نہ ہی ان علاقوں میں متاثرین کے لیے کسی قسم کے امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری جانب نصیرآباد اور قلات ڈویژن کے شہروں کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ آپ اوستہ محمد ڈیرہ مراد جمالی صحبت پور گنداواہ حب لسبیلہ اوتھل وندر سبی ودیگر شہروں اور شہریوں کی حالت دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔
کہ اس جدید صدی میں بھی بلوچستان کے لوگ کس طرح گندے پانی اور سخت گرمی میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں آپ کو یقین نہ آئے تو ان دنوں آپ نصیرآباد جعفرآباد کے قومی شاہراہ کا ایک چکر ضرور لگائیں،پورے قومی شاہراہ اور مین بازار میں ایک فٹ سے زیادہ پانی ٹھہرا ہوتا ہے جس سے شہری اور تاجر مسلسل اذیت کا شکار ہیں جبکہ آپ اوستہ محمد ڈیرہ مراد جمالی جعفرآباد کے روڈ کے علاوہ گلیوں کی حالت دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے ان مذکورہ تمام علاقوں میں میونسپل کمیٹیز قائم ہیں اور سالانہ کی بنیاد پر انہیں کروڑوں روپے کی فنڈنگ کی جاتی ہے۔
اس باوجود شہروں میں سیوریج کا پانی برسات کے علاوہ بھی روڈ پر آتا ہے جنہیں میونسپل کمیٹی نہ تو صفائی کرنے کی زحمت کرتی ہے اور نہ ہی ان کی مناسب دیکھ بھال اور ہاں اگر سماجی یا سیاسی افراد شکایات کریں یا کمشنر کو درخواست کریں تو ان آفیسران کے حکم پر چند دن کام کرنے کے بعد پھر وہی حال۔اگر اس طرح کہا جائے کہ بلوچستان کو کرپشن کی جنت کہا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں جہاں کوئی کسی سے پوچھ گوچھ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا،انتظامی آفیسران سرکاری اصول و ضوابط کے بجائے منتخب نمائندوں کے احکامات پر مکمل عمل کرتے رہتے ہیں۔
جہاں کسی انکار کی صورت میں جلد ٹرانسفر ہو جانا معمول ہے جس کے باعث افیسران ریاست کے بجائے منتخب نمائندوں کی نوکری میں مصروف عمل ہیں جہاں نہ تو مانیٹرنگ اور نہ ہی جزا وسزا ہو وہاں کیونکر ترقی اور خوشحالی آسکتی ہے۔ آپ باقی شہروں کے بجائے صوبے کے گرین بیلٹ اور گنجان آبادی کے حامل شہروں ڈیرہ مراد جمالی اوستہ محمد ڈیرہ اللہ یار صحبت پور گنداواہ بھاگ کی حالت زار دیکھیں اور ان کو ملنے والے فنڈز کو بھی دیکھیں تو آپ انگشت بداں رہ جائیں گے اور اتنی فنڈنگ کے باوجود ان مذکورہ شہروں میں صفائی تک نہ ہونا المیہ اور حکومتی گورننس پر سوالیہ نشان ہے۔
کیا کبھی صوبائی وزیر بلدیات سیکرٹری بلدیات ڈائریکٹر بلدیات وزیر اعلیٰ انسپیکشن ٹیموں نے صوبے بھر کے ان میونسپل کمیٹیز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کے فنڈز کی مانیڑنگ کی جسارت کی ہے؟ کیا ان میونسپل کمیٹیز کے تحت ہونے والے ترقیاتی منصوں کا کبھی آڈٹ کیا گیا ہے؟ اسی وجہ سے ہی انتظامیہ شتر بے مہار بن چکی ہے عوام کو تو آفیسران کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ ایک واقعہ آپ قارئین کے گوش گزار کرتا چلوں کہ ایک اعلیٰ آفیسر نے راقم کو بتایا کہ جن نمائندوں کی سفارش پر ہمارا تبادلہ ہوتا ہے ہم تو ان نمائندوں کے ہر جائز ناجائز حکم پر عمل کرتے ہیں اگر ہم ریاست یا صوبائی حکومت کے گورننس کی اصولوں پر کاربند رہیں۔
تو ہم زندگی بھر او ایس ڈی ہی رہیں گے۔ بلوچستان واحد صوبہ ہیں جہاں ایماندار آفیسران پوسٹنگ کے بجائے ہر وقت او ایس ڈی رہتے ہیں تاہم حکم ماننے والے اور جی حضوری کرنے والے وزیروں اور منتخب نمائندوں کے لاڈلے کی پوسٹوں پر ہمیشہ براجمان رہتے ہیں۔بلوچستان میں صوبائی وزیر کا حکم ہی ریاست کا حکم اور اصول ہوتا ہے جس کے باعث بلوچستان ستر سالوں سے ترقی کے بجائے تنزلی اور پسماندگی کا شکار ہے، کرپشن میں جہاں منتخب نمائندے وزیر مشیروں کا کردار ہے وہاں سب سے زیادہ ذمہ دار”یس سر“ والے انتظامی آفیسران، سیکرٹری کاہر ناجائز حکم ماننے والے نااہل آفیسران ہی ان سب سے زیادہ صوبے کے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔
ڈیرہ مراد جمالی اوستہ محمد ڈیرہ اللہ یار کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان شہروں کی نہ تو حالت بدل رہی ہے اور نہ ہی شہریوں کو صاف وشفاف ماحول میسر ہو رہا ہے اور نہ ہی ان شہروں کی خوبصورتی میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم ان مذکورہ میونسپل کمیٹیز کے آفیسران کے اثاثوں میں جادوئی ترقی ضرور ہو رہی ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان گڈ گورننس اور اصلاحات لانے کے بڑے بلند و بانگ دعوے کر رہا ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے تئیں اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش بھی کر رہا ہوگا لیکن شومئی قسمت سیاسی مداخلت اس کوشش کو کبھی بھی کامیاب ہونے نہیں دے گی۔
جام کمال خان کو مجھ ناچیز کا مشورہ ہے کہ جب تک بلوچستان میں سفارش سیاسی مداخلت اقرباپروری اور پسند ناپسند کے بجائے میرٹ اور قابلیت پر انتظامی تعیناتیوں کا حکم نہیں دیں گے اس وقت تک بلوچستان کی ترقی کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہ ہوگا اور ساتھ ہی بلوچستان میں نیب کو بھی متحرک کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھی انتظامی آفیسر قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت نہ کرے۔ اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان حقیقت میں مخلص ہیں تو انہیں انتظامی اصلاحات لانے ہوں گے اور ساتھ ہی چیف سیکرٹری بھی انتظامی طور پر متحرک نہیں ہیں بلوچستان کو ایک ایماندار اور متحرک اور ترقیاتی اصلاحات نافذ کرنے والا چیف سیکرٹری ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتا ہے تاہم یہ سب خواب اللہ کرے حقیقت بنیں تاکہ بلوچستانی قوم کی تقدیر بدلے اور حقیقی معنوں میں بلوچستان ترقی یافتہ صوبہ بنے۔