|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2020

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمین کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحروبر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ اْجالے راہ گزر تمہارے ہیں
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک نظریے پر قائم ہوا اور اس نظریے کی حفاظت و نگرانی کی خاطر پاک مٹی نے ایسے جری اور بہادر سپوتوں کو جنم دیا جن کے کارناموں کو تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی۔ 1947سے لیکر اب تک ہمارا ملک مسلسل دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اس ملک کو مٹانے کا خواب دیکھنے والوں نے کبھی نوخیز عمری میں اس کی سا لمیت پر حملہ کیا تو کبھی ساز باز کرکے اس کو دوحصوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔ کبھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے خلفشار اور بد امنی پھیلانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو کبھی علاقائی اور لسانی تعصب کو ہو ا دے کر اپنے مضموم مقاصد کو حاصل کرنے کی قبیح کوشش کی گئی۔

عالمی سطح پر سازشوں کا جال بْنا گیا اور شیطانی سوچ رکھنے والے ہم نوالہ ہم پیالہ ہو کر پاک وطن کے درپے ہو گئے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان پر دو بڑی جنگیں مسلط کیں۔ محبت، یگانگت، بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے دشمنانِ پاکستان نے دین کے لبادے میں سماج دشمن عناصر کو ہمارے پْر امن معاشرے میں داخل کر کے وطن کی نظریاتی سرحدو ں کو کمزور کرنے کی کوششیں کیں۔ دو بدوں روایتی جنگوں سے لیکر پاکستان کو دہشت گرد اور ناکام ملک قرار ددلوانے کے ناپاک عزائم و منصوبہ بندیوں کے سامنے پاکستانی قوم اور پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی رہیں ہیں۔ جب بھی اس ملک پر مشکل گھڑی آن پڑی تو افواجِ پاکستان نے دلیری، تدبر، جرا ¿ت اور پیشہ ورانہ فرض شناسی سے اس کا مقابلہ کیا۔

پاک بھارت جنگوں سے لے کرآج تک شہداء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ارض پاکستان کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ بحری سرحدوں کی نگراں پاک بحریہ نے پاکستان کی تاریخ میں بہادری، شجاعت، دلیری، جوانمردی،حوصلوں اور عزم کی ایسی داستانیں رقم کی ہے جنہیں رہتی دینا تک فخرسے یاد کیا جائے گا۔ قیام پاکستان کے وقت مختصر ترین افرادی قوت اور جنگی سازوسامان بشمول جہازوں کے ساتھ وجود میں آنے والی نوزائیدہ پاک بحریہ کو قائد اعظم نے گورنر جنرل بننے کے بعد پہلے دورے کا شرف بخش کے اس فورس میں عزم، حوصلے اور توانائی کی ایک نئی روح پھونکی۔

پاک بحریہ ابھی پاکستان کی بحری حدود کی دفاع کی ضروریات کو پورا کرنے میں کوشاں تھی کہ 1965 میں دشمن نے اس یقین کے ساتھ حملہ کردیا کہ تعداد اور جنگی سازوسامان میں کمی کے باعث ہمیں شکست دیناآسان ہوگا۔ لیکنوہ اس حقیقت کو بھول گیاتھا کہ جنگیں عددی برتری اور سازوسامان سے نہیں بلکہ جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔ یہ جذبہ ایمانی اورحب الوطنی کی انتہاتھی جس کی بنا پر پاک بحریہ کے جہازوں نے بھارت کے پانیوں میں 200 سمندری میل اندر جا کر بھارتی بحریہ کو ناکوں چنے چبوائے۔

اعلان جنگ ہوتے ہی پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس بابر،خیبر، بدر،ٹیپو سلطان، جہانگیر، شاہجہاں اورعالمگیر کموڈور ایس ایم انور کمانڈر پاکستان فلیٹ کی کمانڈ میں دوارکا کی طرف روانہ ہوئے۔ دوارکا پر قائم ریڈار اسٹیشن دشمن کے جہازوں کو فضائی حملوں کے لئے مسلسل راہنمائی فراہم کر رہا تھا جس کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کے جہازوں کو بھارتی پانیوں سے باہر لانے کی حکمت بھی اس آپریشن کا حصہ تھی جن کے لئے پاک بحریہ کی آبدوز غازی پہلے سے ہی بحرِ ہند میں موجود تھی۔ 8 ستمبر کوکراچی سے روانہ ہونے والے۔

پاک بحریہ کے سات جنگی جہاز 8 ستمبر کو جب دوراکا کے قریب پہنچے تو ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ آفیسرز اور سیلرز میں موجذن تھا کہ لبیک کے لئے ایک حکم کا انتظار تھا۔ منصوبے کے مطابق تمام جہازوں نے 50 50 گولے فائر کئے اور صرف تین منٹ میں دوارکا راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اپنی عددی برتری کے غرور میں مبتلا بھارتی بحریہ کو یہ سمجھ ہی نہ آ سکی کہ وہ کون سا جذبہ تھاکہ جس کے تحت ان کی حدود میں داخل ہو کر پاک بحریہ کے جہازوں نے اس اہم سٹیشن کو سمندر برد کر دیا۔ بھارتی بحریہ کے پاؤں اْکھڑ چکے تھے اور وہ اپنی ناکامی پر ماتم کناں تھی۔ اس کامیاب آپریشن نے بھارتی بحریہ پر پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور آفیسرز و جوانوں کے بلند جذبوں اور عزم کی ایسی دھاک بٹھائی کہ آج بھی آپریشن دوارکا بھارتی بحریہ کے لئے دہشت کی ایک مثال ہے۔

1971 کی جنگ کے دورا ن بھی پاک بحریہ کے آفیسرزاور جوانوں نے جانوں کی قربانیاں پیش کرنے سے دریغ نہ کیا۔اس جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں مکتی بانیوں کو بھارت کی ہر طرح سے مدد حاصل تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناب ہوگا کہ بھارت نے بغاوت کو ہوا دینے کے لیے ایک سازش کے تحت باغیوں کے گروپ کو تربیت دے کر اسے مسلح کیا کہ جنہیں مکتی بانیوں کا نام دیا گیا۔۱۷۹۱کی جنگ کے دوران بحری سرحدوں کی پاسبانی کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ نے مشرقی پاکستان میں پاک آرمی کی نقل و حمل میں بھی مدد کی۔

جنگ کے دوران پاکستان نیوی کی آبدوزغازی کو بے آف بنگال میں تعینات کر کے اسے سمندری بارودی سرنگیں بچھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستان نیوی کی گن بوٹس راجشاہی اور کومیلا نے بھارتی حملوں کے سامنے مزاحمت کی اور ان کے جہازوں کو نقصان بھی پہنچایا۔ پاکستان نیوی کی آبدوز ہنگور نے بھارتی بحریہ کے جہاز ککری کو ڈبو کر بحری جنگ میں نئی تاریخ رقم کی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بحری جنگی جہاز کو تباہ کرنے والی پہلی آبدو زکا اعزاز حاصل کیا۔جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا جذبہ صرف جنگوں تک ہی محدود نہیں رہا۔

بلکہ بحری تنصیبات اور اثاثہ جات کی حفاظت اور نگرانی میں بھی یہی جذبہ کار فرما رہا۔ پاکستان نیوی کے ایوی ایشن بیس پی این ایس مہران پر حملہ ہو یا پاک بحریہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے پی این وار کالج لاہور میں موجود اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت۔ پاکستان نیوی کے رہائشی علاقے کے مرکزی داخلی گیٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو روکنا ہو یاڈا کیارڈپر دہشت گردوں کے مضموم عزئم ناکام بنانا ہو یا بسول ڈیم او ر اورماڑہ کا سروے کرنے والی ٹیم کی حفاظت کا اہم فریضہ ہو پاک بحریہ کے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے اپنی قیمتی جانیں پیش کر کے ہزاروں قیمتی انسانی جانوں اور حساس دفاعی تنصیبات کو بچایا۔

شجاعت،جرا ¿ت اور بہادری کے یہ کارنامے آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ شہداء اور غازیوں کی قربانیوں نے اس اعتقاد کو مزید تقویت بخشی ہے کہ شہادت فنا کا نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجانے کا راستہ ہے۔ہمیں بحیثیت قوم وطن کے دفاع کے عہد کے ساتھ ساتھ شہداء کی قربانیوں اور غازیوں کے کار ناموں کوخراج عقیدت پیش کرنا ہے۔پاکستان کودرپیش اندرونی بیرونی خطرات سے محفوظ بنانے کے لئے ہر پاکستانی کو اپنااپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ نئی نسل کو پر امن،باوقاراور خوشحال پاکستان دے سکیں۔