|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2020

بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ 47فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ شومئی قسمت کہ بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے اتنا ہی زیادہ پسماندگی محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ جہاں کے باشندے ترقی کے نام سے واقف تک نہیں آپ کو پورے بلوچستان میں نہ تو معیاری اور جدید ترقی یافتہ شہر ملیں گے اور نہ ہی اس صوبے کے باسیوں کو بہترین ہسپتال و علاج معالجہ کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی بلوچستان تعلیمی میدان میں کوئی خاطر خواہ نتائج دے رہا ہے۔ آپ بلوچستان کی بدحالی اور عدم ترقی کا حال کئی برسوں سے سن رہے ہونگے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ وفاق اور حکمرانوں کی طرح بلوچستان کو ملک کی قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی وہ اولیت اور کوریج نہیں دے رہی جس کا صوبہ اور عوام مستحق ہیں۔ایک کروڑ تیس لاکھ کی آبادی زندگی کی تمام تر سہولیات اور جدید ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ بلوچستان کو عدم ترقی اور تباہ حالی میں جہاں وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے وہاں بلوچستان اسمبلی کے ان معزز 65 اراکین کا سب سے زیادہ کردار ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں نسل در نسل منتخب ہونے والے ہی بلوچستان کو ترقی کے بجائے پسماندگی عدم ترقی بدحالی اور محرومیوں میں دھکیلتے رہے ہیں۔

جس ملک یا معاشرے میں انصاف پر مبنی فیصلے نہ ہوں یا اکائیوں میں تفریق کیا جاتا ہو تو نہ وہ معاشرہ اور نہ ہی وہ ملک یکجہتی کا نمونہ بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ یقینا اسی وجہ سے بلوچستان اور اس کے باسی ستر سالوں سے ترقی کو ترس رہے ہیں، آپ اس امر کا اندازہ لگائیں کہ کراچی کے چار سوریج نالوں اور شہر کے ڈوبنے پر جہاں صوبہ اور وفاق پریشان تھے وہاں میڈیا نے بھی سب سے زیادہ اس شہر کے مسائل کو اجاگر کیا۔ بلوچستان کو وفاق کی طرح قومی میڈیا بھی ہمیشہ سے مکمل نظر اندازکرتا آ رہا ہے۔

آج تک بلوچستان میں ہونے والے ظلم وزیادتی اور پسماندگی و بدحالی کو کبھی بھی ملکی میڈیا نے نہ تو اجاگر کیا اور نہ ہی بلوچستان کو میڈیا میں جائز حق و کوریج دیا گیا ہے جس کے باعث ملکی سطح پر 60 فیصد سے زائد پاکستانی بلوچستان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے۔ وفاقی حکومت اور عمران خان کا فرض ہے کہ وہ تمام صوبوں کیساتھ ساتھ بلوچستان پر خصوصی توجہ دیں اور بلوچستان کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اولیت دیں بلکہ میرٹ پر کم ترقیافتہ علاقوں کو سب سے پہلے اولیت دیگر انہیں ترقی یافتہ بنا کر پاکستان کی ترقی اور یکجہتی کا اعلیٰ مثال اور نمونہ بنا سکتے ہیں۔

عمران خان کا حالیہ دورہ کراچی اور گیارہ سو ارب روپے کی ترقیاتی پیکج کا اعلان قابل احسن اقدام ہے بلاشبہ آپ ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس نعرے کو عملی جامہ پہنائیں اور اسی ریاست مدینے کے پسماندہ،عدم ترقی سے دوچار بلوچستان اور اس کا دارالحکومت کوئٹہ بھی اسی طرح کے پیکیج کا مستحق ہے۔کیا بلوچستان کی ترقی وفاق کی ترجیحات میں شامل نہیں؟ کیا عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح بلوچستان پر کوئی توجہ اور نہ ہی میگا منصوبوں یا ترقی کا عمل شروع کرنا چاہتے ہیں یا پھر بلوچستان ملک کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے میرٹ اور معیار پر نہیں آتا یا پھر بلوچستان کی ترقی سے وفاق کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟

عمران خان والی ریاست مدینہ کے دعویدار کو اب بلوچستان کی ترقی کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا وفاق کو اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرکے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ صوبے کے نوجوانوں کو وفاق میں روزگار کے مواقع دینے ہونگے۔ بلوچستان کے آفیسران کو پاکستان سیکرٹریٹ میں بھی جگہ دینا ہوگا۔ کوئی بھی وفاقی سیکرٹری ایڈیشنل سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری تک بلوچستان کا نہیں ہے ملکی ترقی سمیت دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان پر بھی نظر کرم کرنا ہوگا صوبے کے باشندوں کو ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہوگا آپ سب کو یاد ہوگا۔

کہ چند سال قبل بلوچستان کا سب سے بڑا شہرکوئٹہ جو کبھی لٹل پیرس ہوا کرتا تھا خوبصورت و صاف ستھرا شہر سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا تھا اب وہی خوبصورت اور لٹل پیرس گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے جہاں نہ تو وفاق نے میٹرو بس، گرین بس یا بی آر ٹی جیسا کوئی منصوبہ بنایا ہے جبکہ سی پیک اور گوادر کا مالک صوبہ اورنج ٹرین و میٹرو بس تو کجا دو رویہ سڑک تک کی سہولت سے محروم ہے۔ اب حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ صوبے کو اس کا جائزحق دیا جائے،وفاقی حکومت ایک سال کیلئے فیڈرل منصوبوں میں بلوچستان کی پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے میگا منصوبے شروع کرے۔

بلوچستان کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی ہے بلوچستان کو ترقی اور توجہ دینے سے ہی بلوچستان کے لوگوں کی محبت حاصل کی جا سکتی ہے اور اس طرح کی حکمت عملی سے ہی ہم دشمن کے تمام ناپاک منصوبے اور سازشیں ناکام بنا سکتے ہیں۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو بلوچستان کی سب سے زیادہ وکا لت کرتے تھے اب جب وزیر اعظم بنے ہیں تو بلوچستان کو وہ یکسر بھول گئے ہیں۔عمران خان کو اب بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے پہل کرنا ہوگا اور اس نعرے کو حقیقت کا روپ دینا ہوگا کہ بلوچستان کی ترقی سے ہی پاکستان کی ترقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان وہ وقت آگیا ہے کہ اب بلوچستان کیلئے کراچی طرز پر ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا جائے۔

اور وزیراعظم جلد کوئٹہ کا دورہ کرکے بلوچستان کو حقیقی معنوں میں ترقیافتہ بنانے کیلئے اربوں روپوں کے منصوں کا اعلان کریں تاکہ بلوچستان کے ساتھ ستر سالوں سے وفاق کا سوتیلا ماں والا رویہ ختم ہو اور ساتھ بلوچستان کے عوام کے دل جیتے جائیں۔ بلوچستانی محب الوطن ہیں ان کی حب الوطنی کومدنظر رکھ کر بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ اگر اس بار بھی وفاق نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو پھر حالات دن بدن خراب ہوتے جائیں گے۔ کیا عمران خان بلوچستان کی ترقی کیلئے اس طرح کا اقدام اٹھا سکتے ہیں تاہم یہ بعید از قیاس ہے۔لیکن عمران خان، فوج، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اداروں کو اب بلوچستان کو اولیت دینا ہو گا۔ گوادر پورٹ، سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرکے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی دلانا ہو گا تاکہ بلوچستان ملک اور خطے کا جدید ترقیافتہ صوبہ بنے جس سے ملکی ترقی کو چار چاند لگے۔