|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2020

ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول، ایسی سرحد جس میں دو ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تہتر سال سے کھڑی ہیں، کبھی گولے داغے جاتے ہیں، گنیں آگ اگلتی ہیں، شعلیں بلند ہوتے ہیں دونوں اطراف لہو گرتا ہے اور مٹی اپنے ہی بیٹوں کے خون سے لال ہو جاتی ہے،سات سو کلومیٹر طویل یہ ایل او سی کسی بھی فوجی کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں، جہاں دونوں اطراف بدگمانی ہے، خوف ہے گولیوں کی تڑتراہٹ، بارود کی بو ہے، مگر مادروطن پر مر مٹنے کی چاہ ہے،،،، ایسا نہیں ہے کہ سیز فائر نہیں ہوتا،،، کئی معاہدے بھی ہوئے پہلا معاہدہ ستائیس جولائی 1949 کو ہوا، دوسرا معاہدہ شملا میں ہوا۔

1972 میں اور پاکستان اور بھارت کے مابین سرحد کو ایل او سی کا نام ملا اور تیسرا معاہدہ نومبر 2003 کو ہوا جسے دونوں ملکوں کے درمیان اب تک کا سب سے اہم اور اچھا موڑ قرار دیا جا سکتا ہے کارگل کے بعد یہ ایک اہم معاہدہ تھا جسے اب بھارت خود ختم کر رہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان 4 بار جنگ چھڑ چکی ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور دونوں کی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے اور ایسے میں ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے بڑھتی جارحیت سے کوئی سب سے زیادہ متاثر ہے۔

تو پاکستانیوں کے بعد دونوں طرف کے کشمیری ہیں، چاہیے جموں کشمیر کا کشمیری ہو یا آزاد کشمیر کا،،،، جس کے لیے دونوں ملک ایل او سی پر برسرپیکار ہیں وہ خود کیا چاہتے ہیں، کشمیر کا حل کیا ہے؟ ایل او سی پر کنٹرول کا بھیانک خواب اگربھارت نے سچ کرنے کی کوشش کی پھر انجام کیا ہو گا؟ یہ سوال جواب کا محتاج نہیں اور اس سب کے پیچھے کی وجہ ہے بھارت کا آج تک پاکستان کو تسلیم نا کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان قریب 3133 کلومیٹر کی سرحد ہے جس میں ایل او سی کے 700 کلومیٹر، ورکنگ بانڈری کے 193 کلومیٹر اور باقی کا 2240 عالمی سرحد تسلیم ہوتی ہے۔

لیکن بھارت نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا پاکستان کا وجود اسے ہمیشہ کھٹکتا رہا جس نے آج بھارت کو سیکولر ملک سے ایسے ملک کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے جس نے اسے دہشتگردوں اور شدت پسندوں کا گڑھ بنا دیا ہے۔ یہ بھی توجہ طلب ہے کے ایک طرف پاکستان افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی اور ایران بارڈر سے ہونے والی چھیڑ چھاڑ سے نمٹتا ہے اور دونوں کے پیچھے بھارت ہی ہے،وہیں پاکستان افغانستان اور ایران بارڈر پر باڑ لگا رہا ہے جو دونوں کے لیے قابل قبول نہیں،وہی بھارت بھی پاکستان کی ورکنگ باؤنڈری پر اسمارٹ باڑ لگا رہا ہے۔

جس کا مقصد چوبیس گھنٹے نگرانی ہے اور مستقبل میں سرحد پر لیزر باڑ لگانے کا منصوبہ رکھتا ہے،گو کے سیٹلائٹ کے ذریعے پاکستان و بھارت کی سرحد کی نگرانی ممکن ہے لیکن کبھی کبوتر تو کبھی غبارے کے ذریعے جاسوسی کے بھارتی لطیفے بھی آئے روز سننے کو ملتے ہیں لیکن ان سب منصوبوں کے باوجود بھارتی جارحیت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بڑھتی جا رہی ہے۔

جولیا تھوپمسن ایک انٹرنیشنل آبزرور ہے جس نے ریسرچ کی
the dynamics of violence along the Kashmir, Divide 2003-2015

جس میں وہ واضح طور پر کہتی ہے کہ2012 کے بعد سیز فائر کی خلاف ورزی بڑھی اور مودی کے آنے کے بعد نان اسٹیٹ ایکٹرز کو آزادی حاصل ہو گئی اور حالات ابتر ہونا شروع ہو گئے، جولیا نے ایک چارٹ بھی مرتب کیا کہ کس طرح 2005 میں سیز فائر کی خلاف ورزی شروع ہوئی اور بڑھتے بڑھتے 2012 میں یہ شدید ہو گئی ڈیٹا 2005 سے 2015 تک کے لیے مرتب ہوا۔۔۔۔۔یہ بھی بتایا گیا کہ کیسے دونوں ملکوں کے وفود ملتے رہے مگر سرحد پر خلاف ورزی جاری رہی۔ وہ آخر میں یہ بھی کہتی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ہائی آفیشلز میٹنگ ہوتی رہیں۔

مگر ایل او سی کی خلاف ورزی بھی جاری رہی 2007 کے بعد سے اب تک کوئی ایسا موقعہ نہیں آسکا جس میں سی بی ایم ہو پاتا، لہذا امن کے لیے ضروری ہے کہ صرف دونوں ملکوں کے مابین وفود کا آنا جانا کارگرنہیں ہو گا بلکہ ایل او سی کو بھول کے نئے سرے سے معاملات طے کرنا ہونگے۔۔۔۔ لیکن کیا یہ کارگر ہوگا؟ یقینا نہیں!کیونکہ اگست 2019 کو نریندر مودی نے تمام حدیں پامال کرتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی جبکہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 ‘اے’ اسی آرٹیکل کا حصہ ہے۔

جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا تھا جس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ اب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو گا اور گزرے ایک سال میں نا صرف ایسا دیکھا گیا بلکہ بھارت نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر تخریب کاری اور بھی بڑھا دی ہے۔ 6 ستمبر وہ تاریخ ہے جس کے لیے ہر پاکستانی جذباتی ہوتا ہے اور سے ایک دن پہلے یعنی 5 ستمبر کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نیرکھ چکری سیکٹر پر جارحیت دکھائی اور نوجوان زخمی کردیا۔

رواں برس بھارتی افواج دو ہزار ایک سو اٹھاون بار سیز فائر کی خلاف ورزی کرچکی ہے اوربھارتی افواج کی فائرنگ سے سترہ شہری شہید اور ایک سو اڑسٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ ماہ ستمبر جہاں 1965 میں بھارت کو دیا گیا سبق تو یاد دلاتا ہے ہمیں حوصلہ دیتا ہے کے ہمارے جوان سرحد پر جاگ رہے ہیں تا کہ ہم بے فکری کے مزے اڑا سکیں لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت بھی جاگی ہوئی ہے کیونکہ ملک میں دہشتگردی سے نمٹنا ہو، سیلاب ہو، بارش ہو، زلزلہ ہو، ٹڈی دل کا حملہ یا بھارت کی جارحیت فوج نے ہی سینہ سپر ہونا ہوتا ہے، گزرے دو برسوں میں جب وزیر خارجہ بھی ملک کو میسر رہا پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر خارجہ پالیسی میں کیا حاصل کیا؟

ایک طرف سی پیک ہے جسے پاکستان کی ترقی کا ضامن گردانا جا رہا ہے اس کے لیے بھی بھارت سازباز کررہا ہے ایران کے ساتھ ملکر چاہ بہار میں موجود ہے۔ بھارتی شہریوں کی بڑی تعداد خلیجی ملکوں میں سکونت پذیر ہے وہیں خلیجی ملکوں سے پاکستانیوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے یہ وہ دوست ملک ہیں جن کو ہم سینہ پھلا کر دوست کا اسٹیٹس دیتے ہیں آج خود بھارت نے اپنے پاؤں پر آرٹیکل 370 کا کلہاڑا مار کر خود کو بے نقاب کیا ہم نے کیا کیا ہے؟ کیا اتنا رونا کافی ہو گا کہ بھارت نے کشمیریوں کی امنگوں کو قتل کیا ہے یا وہ کشمیری جو ہماری جانب امید و یاس سے تک رہے ہیں۔

ہم نے ان کو بھی مایوس کر دیا ہے، بھارت کی کامیاب سفارتکاری کے جواب میں ہم نے کیا کیا ہے؟ سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور چین کے درمیان خود کو سینڈوچ بنا لیا ہے اور اپنی رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں جسے بچانے کے لیے کبھی آرمی چیف سعودی عرب روانہ ہوتے ہیں تو کبھی چین، اس بیچ ایل او سی پر جان بھی جوانوں کی جاتی ہے اور زخمی اور شہدا میں بھی پاکستانی و کشمیری شہری ہی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 47/1948جموں کشمیر میں ووٹ کے ذریعے معاملہ حل کرنے پر زور دیتی ہے ہم نے اب تک کیوں اس معاملے پر دنیاکو فریق نہیں بنایا صرف ملک میں سیاسی تقریروں پر زور کیوں؟

اس وقت بھی بھارتی حکومت اندرونی اختلافات کے باوجود ایک جان ہو کر پاکستان کے معاملے پر ایک ہے اور دنیا بھر میں پاکستان مخالف من گھڑت پروپیگنڈا چلا رہا ہے، 2016 میں نام نہاد دہشتگردی کیمپ پر سرجیکل اسٹرائیک کہ بھارتی سپاہی پیدل گھومتے ٹہلتے پاکستان آئے اور چلے بھی گئے اور اس بودے اور مضحکہ خیز سرجیکل اسٹرائیک پر عنقریب فلم بھی آجائے گی یہی نہیں فروری 2019 میں ابھینندن کو جیسے گرفتار کیا گیا اور پاکستان نے امن کی خاطربڑے دل کے ساتھ اسے رہا بھی کر دیا لیکن بھارت گھریلو ہندوستانیوں کو بالی ووڈ کے ذریعے اپنے من پسند جھوٹ سے مطمئن رکھتا ہے۔

اس وقت بھی بھارت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر جارحیت دیکھا رہا ہے لیکن عام ہندوستانی اور خارجہ محاذ پر اپنا چہرہ دوسرا دکھا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستانی دیہات زیادہ تر صفر لائن پر موجود ہیں جس کی وجہ سے سرحد پر بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستانی شہری زخمی و شہید ہوتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر بھارت کے ساتھ بامعانی مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن بھارت کبھی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کے کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا جہاں سرحدوں پر ہمارے جوان چوکس اور بھارتی سپاہیوں کو سخت وقت دے رہے ہیں۔

وہی سیاسی قیادت کو بھی حقیقی سیاست کرنا ہوگی تا کہ سیاسی اور دیرپا حل تلاش کیا جا سکے۔ کامیاب سفارتکاری ہی بھارت کا دوہرا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے گی اور ورکنگ باؤنڈری کے ساتھ جنگ بندی کی مسلسل بھارتی خلاف ورزی کی رپورٹ اور تحقیقات کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں یونائیٹڈ نیشن کمیشن کو اپنے مشنز بھیجنا ہونگے۔اب تک پاکستان میں تعینات سفارتی مشن کو ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی کے دورے ہمارا موثر ترین فوجی ادارہ آئی ایس پی آر ہی خود سرانجام دیتا رہا ہے لیکن حقیقتاً وزارت خارجہ کو موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

تاکے ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی دونوں ملکو ں کے جوانوں کے لیے بھیانک خواب نہیں بلکہ دوملکوں کے مابین ایک حقیقت ہواور اس پر امن کا پرچم لہرائے۔پاکستان تو ہمیشہ پہل کرتا آیا ہے آج بھی بانہیں پھیلائے کھڑا ہے اپنے سے حجم اور آبادی میں بڑے بھارت کے سامنے کہ کچھ بڑا پن ہو جائے۔