|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2020

بلوچستان ملک خداداد پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور پسماندہ صوبہ ہے،کوئٹہ کو چھوڑ کر اندرون بلوچستان کی صورت حال کا جائزہ لیں تو یہ حقائق ہمارے سامنے واضح طورپر آئیں گے کہ اندرون بلوچستان کے باسی آبنوشی‘ صحت عامہ‘ تعلیم‘ پختہ سڑکوں سمیت زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں،

حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں،نئے نئے چہرے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اپنے بلندو بانگ دعووں کے ساتھ کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے‘ وغیرہ وغیرہ‘ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خالصتاً وجہ بھی یہ ہے کہ اندرون بلوچستان عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبے کے بڑے بڑے شہروں سے لوگوں کی کوئٹہ میں منتقلی اور رہائش کی وجہ سے کوئٹہ میں اراضی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کوئٹہ شہر جو کہ انگریزوں نے چند لاکھ افراد کے لئے ڈیزائن کیا تھا۔

آج لاکھوں افراد بشمول تارکین وطن(افغان مہاجرین) کے یہ شہر ایشیاء کا ماحولیاتی حوالے سے گندا ترین شہر کا اعزاز پا چکا ہے۔ کوئٹہ جس تیزی سے پھیل چکا ہے اس میں آئندہ چند سالوں میں آپ کو رہائشی پلاٹ تک دستیاب نہیں ہوگا۔ کوئٹہ سے کولپور اور کوئٹہ سے کچلاک تک کی نجی و سرکاری اراضی پر جس تیزی سے ہاؤسنگ اسکیمات تعمیر کی جارہی ہیں آئندہ چند سالوں میں کوئٹہ شہرکی چھوٹی چھوٹی سڑکیں ان گاڑیوں کو سنبھالنے میں ناکام نظر آئیں گی،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ہمارے سرکاری ادارے شہر خصوصاً صوبائی دارالحکومت سمیت بلوچستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹروں کی حالت زار بدلنے کے لئے سنجیدہ ہی نظر نہیں آتے، ان کے بلندوبانگ دعوے محض انتخابات ہی کے دنوں میں نظر آتے ہیں اس کے بعد وہ صرف اور صرف اپنے خاندان کے افراد کے لئے مختص ہو کررہ جاتے ہیں،پھر ہم نے دیکھا کہ ایسے رکن اسمبلی جنہیں دو وقت کی روٹی بمشکل میسر تھی دیکھتے ہی دیکھتے ایک دو سالوں میں جائیدادوں کے مالک بن بیٹھے،پھر وہ اپنے ووٹروں سے ایسے کٹ کر کوئٹہ تک محدود رہتے ہیں جو دوربین میں بھی اپنے ووٹروں کو نظر نہیں آتے، پھر ان کی ترقی دن دگنی رات چوگنی نظر آنے لگتی ہے۔ ترقیاتی فنڈ زکی بند ربانٹ سے لے کر اپنے مخصوص ٹھیکے داروں کے ذریعے اسکیمات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہی صرف ان اراکین اسمبلی کاکام باقی رہ جاتا ہے۔ یہ ترقیاتی کام عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے کم اور اپنے اور اپنے خاندان سے وابستہ افراد کی ترقی اصل مقصد ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اب نظریاتی نہیں رہی ہیں اب تمام سیاسی جماعتوں نے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت اپنی اپنی پالیسیاں مرتب کررکھی ہیں ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح انہیں وزارتیں حاصل ہوں تاکہ ان جماعتوں سے وابستہ افراد کا ”روزگار کا وسیلہ“ بن جائے یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے عوام کی حالت دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ معاشی طورپر لوگ دو وقت کی روٹی کمانے سے عاری نظر آتے ہیں اگر ترقی کسی طبقے کی ہوتی ہے تو صرف اور صرف اراکین اسمبلی کی ہوتی ہے جنہیں یا تو وزارتوں کے بدلے بھاری فنڈ میسر آتے ہیں یا پھر بطور ایم پی اے اسٹینڈنگ کمیٹیز کے سربراہ کی حیثیت سے لاکھوں میں کھیلتے ہیں حتیٰ کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی یہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں، اپوزیشن لیڈر تک کوسرکاری گاڑی،بھاری تنخواہ سمیت ایک سیکورٹی اہلکار بمعہ دفتر (چیمبر) کی سہولت حاصل ہوتی ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان اراکین اسمبلی کی معاشی حالت”میں کافی حد تک“ سدھار آچکی ہوتی ہے۔

قریباًایک دہائی قبل سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے بلوچستان اسمبلی میں صحافیوں سے ازرا مذاق بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر روزگار میسر نہیں تو ایم پی اے بن جاؤ‘پھر وارے نیارے“ ان کی بات اب سو فیصد درست نظر آتی ہے کہ ہم اپنے قرب و جوار میں ان اراکین اسمبلی کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے چند سالوں میں اسقدر ترقی کی ہے کہ ترقی پاکر حیران ہیں کہ آخر ایسا کونسا اللہ دین کا چراغ ان کے ہاتھ لگا ہے کہ یہ ہر آنے والے دن میں امیر سے امیر تک ہوتے جارہے ہیں جبکہ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی حالت آج بھی ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ میرے اس تنقیدی جائزہ کی وجہ یہی ہے کہ مجھے اپنے اندرون بلوچستان کے باسیوں سے شدید محبت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے یہ بھائی بھی زندگی میں وہ سہولیات حاصل کریں۔ جو ہم جیسے لوگ صوبائی دارالحکومتوں میں رہ کر حاصل کررہے ہیں۔ اندرونی صفحات میں نصیر مستوئی کا آرٹیکل پڑھ کر ڈویژنل کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی (سابقہ ٹیمپل ڈیرہ) شہر کا نقشہ اچانک میرے آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ ڈیرہ مراد جمالی نے ٹیمپل ڈیرہ کے بعد سے اب تک کوئی خاص ترقی نہیں کی ہے البتہ کمرشل بنیادوں پر صرف اور صرف اس کی ایک آر سی ڈی شاہراہ نے ایک لمبی آنت کی طرح ”بازار“ کا روپ حاصل کیاہے اس کے علاوہ اس شہر نے کوئی خاص ترقی نہیں کی ہے۔ نصیر احمد مستوئی اپنے آرٹیکل میں رقمطراز ہیں کہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں کمشنر سمیت ڈویژن کے آفیسروں کے دفاتر ہیں مین بازارجو بھی آنت کی صورت میں بازار کہلاتا ہے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اس پر بلوچستان سے سندھ جانے والی تمام چھوٹی ٹرانسپورٹ سے لے کر ٹرالر بھی محو سفر ہوتے ہیں صبح کے اوقات میں ان دکانوں کے آگے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار کے قریب گدھا گاڑیاں“پارک“نظر آتی ہیں کیونکہ ڈیرہ مراد جمالی شہر آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں ایک جدید شہر کی بجائے اجڑے”دیہات“ کا منظر پیش کرتاہے پورے ملک میں ڈھونڈا جائے تو اس طرح کا اجڑا دیہات نما ڈویژنل ہیڈ کوارٹر آپ کو نہیں ملے گا کیونکہ اس شہر کو یہاں کے اراکین اسمبلی سمیت قومی اسمبلی‘سینٹ حتیٰ کہ سابقہ وزراء اعلیٰ اور وزیراعظم جن کا تعلق اس ڈویژن سے ہے اور تھا انہوں نے اس کی ترقی میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو کراچی ڈیفنس‘بحریہ ٹاؤن کراچی‘ اسلام آباد تک ہی محدود رکھا ان کی رہائش اور ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ان بڑے بڑے شہروں تک ہے انہیں اپنے ڈویژن سے صرف اس حد تک غرض ہے کہ انتخابات کے دنوں میں یہ عوامی نمائندے اپنے اپنے جدید کوٹھیوں سے نکل کر اپنے شہروں کا رخ کرتے ہیں جہاں آکر وہ“ برادری ازم“کا پرچار کرکے سادہ لوح عوام سے ووٹ حاصل کرکے اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں اس کے بعد ”یہ جاوہ جا“ یہ اپنے شہروں سے پھر ڈیفنس کی کوٹھیوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ مراد جمالی آج بھی ایک دیہات کا منظر پیش کرتا ہے جہاں نہ تو اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے جاسکے اور نہ ہی دیہاتوں کو پختہ سڑکوں کے ذریعے بڑی سڑک سے ملایا گیا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی بازار سے نکلتے نکلتے آپ کی گاڑی کو گھنٹوں لگتے ہیں کیونکہ شہر انتہائی تنگ سڑک پر بنائی گئی ہے اس سڑک پر بڑی بڑی گاڑیاں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں بقول مضمون نگار کے بلوچستان میں ناقص منصوبوں میں محکمہ مواصلات و تعمیرات‘ محکمہ ایری گیشن، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سمیت خاص کہ بلوچستان کے ایم این ایز‘ سینیٹر صاحبان نے کرپشن کو چھپانے کے لئے گمنام ادارے تلاش کیے ہیں جن کے علاقائی دفاتر تک موجود نہیں جیسے پاک پی ڈبلیو‘ اربن ڈویلپمنٹ وغیرہ یہی وجہ ہے کہ اندرون بلوچستان کی حالت زار انتہائی قابل رحم ہے۔ سوشل میڈیا پر اوستہ محمد میں بارشوں کے بعد کا منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جہاں ایک شہری نے شہر کے ڈوبے منظر کو جس طرح بیان کیا کہ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا تھا،دکانداروں کی دکانوں کے آگے بارش کا پانی آب نکاسی نالیاں نہ ہونے کی وجہ سے کئی دنوں تک موجود رہتاہے جس سے اس شہر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے،آفرین ہے اس علاقہ کے ایم پی اے پر حتیٰ کہ وزیراعظم بھی بن کر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال چکے ہیں لیکن آج ان کی ناقص کارکردگی اور عدم دلچسپی ان بڑے شہروں ڈیرہ مراد جمالی‘ ڈیرہ اللہ یار‘ اور اوستہ محمد میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے جس پر دل ماتم کرنے کو چاہتا ہے یہ کیسے بے حس عوامی نمائندے ہیں ان میں سوچنے اور کچھ کرنے کی صلاحیت کیوں نہیں ہوتی،یہ ہر سال خود اپنی شکل میں یا اپنے بچوں اور کزن کی صورت میں تو عوام سے ووٹ لے کر حکومتی ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے۔ان عوامی نمائندوں کے ہر سال چہرے تو بدل جاتے ہیں،باپ‘ بیٹے‘ماموں اور کزن کی صورت میں‘ اگر کوئی چیز نہیں بدل رہی ہے

تو وہ یہ درج بالا شہر اور علاقے جہاں کے عوام جدید شہری سہولیات تو کیا پینے کے صاف پانی سے بھی محروم چلے آرہے ہیں۔ آج بھی ان علاقوں کے عوام زرعی مقاصد کے تحت بنائے گئے ندی نالوں سے گدلا پانی پینے پر مجبور ہیں انسان کو زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے۔ یہ اطلاعات بھی تشویشناک ہیں کہ اس مضر صحت پانی کے پینے سے علاقہ کی وسیع آبادی یرقان کے موذی مرض میں مبتلا ہوچکی ہے، ٹی بی سے لے کر دیگر جان لیوا امراض کا بڑے پیمانے پر لوگ شکار ہوچکے ہیں، شرح اموات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے،یہ جان لیوا امراض اللہ تعالیٰ کی منشا سے نہیں عوامی نمائندوں کی کوتاہی سے لوگوں کو درپیش ہیں،پورے علاقہ کو جاگیردارانہ نظام نے اپنے شکنجے میں جھکڑ رکھا ہے جس سے یہ غریب لوگ نکل نہیں پارہے جبکہ ان کے مقدروں کا فیصلہ ان پر موجود ”بالادست جاگیرداروں“ کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے ان انسانوں کو انسان نہیں بھیڑ بکری سمجھ رکھا ہے۔

ان کی سوچیں سلب کی جاچکی ہیں تعلیمی اداروں کی کمی سے یہاں کے لوگ ان جاگیرداروں کے شکنجے سے نکل نہیں پارہے ایسے میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی ڈھائی سالہ”وزارت اعلیٰ“ بارے بتاتا چلوں جنہوں نے اس مختصرعرصہ میں تربت شہرکا نقشہ تبدیل کرکے اسے جدید شہر بنا ڈالا، سوشل میڈیا میں دکھائے جانے والی تصاویر سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ شہر پاکستان کا نہیں بیرون ملک کسی دوسرے شہر کا ہے۔انہوں نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں صحت‘ تعلیم‘ آبنوشی اسکیمات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر اپنی توجہ مرکوز کرکے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ثابت کردیا کہ عوامی نمائندے عوام ہی سے نکل کر بنتے ہیں کسی جاگیردارکی کوٹھی میں پیدا ہونے والا جاگیر دار ہرگز ہرگز عوامی نمائندہ نہیں ہوسکتا۔

ڈیرہ مرادی جمالی ڈویژن کے عوامی نمائندوں کو چائیے کہ وہ تربت کا ایک تقابلی جائزہ لینے کے لئے دورہ
کریں تاکہ ان کی آنکھیں کھل سکیں اور وہ بھی عوام کی خدمت کے جذبے سے آشنا ہوں۔ بہر حال ہمیں نہیں لگتا کہ اس ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی حالت کبھی بدلے گی آج اس شہر کو بائی پاس کی اشد ضرورت ہے جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتاہے لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جارہی۔