حضرت محمدؐ کی آمد سے پہلے عرب عرب جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ہر طرف باطل ہی باطل تھا حق کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔چوری،دھوکہ بازی، جھوٹ، جوا، شراب نوشی، قتل، بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینا نیز ہر طرح کی برائیاں اس قدر عام تھیں کہ ان کو برائی سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد نبی پاک دین اسلام کا پیغام لائے۔ آپ ؐاور صحابہ کرام کی سخت محنت،جدوجہد اور بے دریغ قربانیوں کے بعد اسلامی ریاست قائم ہوئی جہاں انسانیت پر مبنی اصولوں کی حکمرانی قائم ہوئی،جہاں محبت، اخوت، مساوات اور برابری کے اصولوں پر حکومت اور معاشرے کی تشکیل ہوئی۔
ریاست مدینہ تو ایسی ریاست تھی جہاں صرف مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلموں کی عزت آبرو،جان و مال کا خیال رکھا جاتا تھا،یہ مکمل فلاحی ریاست تھی۔پیارے نبیؐ کے بعد خلفائے راشدین نے ریاست مدینہ کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا۔ ریاست مدینہ میں خلفائے راشدین سادہ زندگی بسر کرتے،ا ن میں جذبہ خدمت اور ایثار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ راتوں کو گشت کرتے تاکہ پتہ کر سکیں عوام میں ضررورت مند کون ہے یا معلوم کیا جاسکے کہ رعایا میں کسی کو کوئی تکلیف یا پریشانی تو نہیں۔حضرت عمر فاروق کے دور حکومت کا فلسفہ تو یہ تھا کہ آپ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی مر گیا تو اس کے بارے بھی مجھ سے حساب لیا جائے گا۔
ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی قوانین کے مطابق وجود میں آئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے ریاست کے اصولوں کے بارے پوچھا گیا تو انکا جواب تھا میں کون ہوتا ہوں ریاست کے قوانین کی بنیاد رکھنے والا، ریاست کے قوانین اور اصولوں کی بنیاد تو 1400 سال قبل ہو چکی ہے۔قائداعظم کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کیلیے وجود میں آنے والی یہ ریاست اب ریاست مدینہ کا عملی تصویر ہوگی۔اگست 2018 میں عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھاتے ہی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر تشکیل دینے کے عزم کا اعلان کیا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی اپنی تقریروں میں اکثر ریاست مدینہ کا ذکر خوب کیا کرتے تھے۔
یہ پاکستان میں بسنے والے ہر پاکستانی کیلیے خوش آئندہ بات تھی کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم کے بعد کسی حکمران نے ریاست مدینہ کا کبھی نام نہیں لیا۔ اب جہاں تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ہوئے دو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف کی حکومت عملی طور پر بالکل فلاپ ہو چکی ہے توغلط نہیں ہو گا۔ابھی کچھ یوم پہلے گجرانوالہ سے لاہور جانے والی خاتون کی گاڑی کا پیٹرول رنگ روڈ پر ختم ہو گیا جس کے باعث گاڑی رک گئی، خاتون نے مدد لینے کیلیے 130 پر کال کی جواب ملا محترمہ یہ علاقہ موٹروے کی حدود میں نہیں آتا۔
اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ درندوں نے وہاں پہنچ کر اس عورت کے ساتھ گینگ ریپ کیا، اسکی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ان موٹروے کے اہل کاروں سے کوئی پوچھے کہ دیبل کونسا حجاج بن یوسف کی حدود میں آتا تھا جو ایک عورت کی پکار پر ہزاروں میل کا سفر اور لاکھوں کے لشکر کے ساتھ محمد بن قاسم کو اس کی مدد کیلیے بھیج دیا گیا۔ صرف بات یہاں ختم نہیں ہوتی ڈوب مرنے کا مقام ہے سی سی پی او عمر شیخ نے کہا عورت کا قصور ہے وہ رات کیوں نکلی یہ فرانس نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ گینگ ریپ کا شکار ہونے والی عورت نے کہا مجھے مار دیا جائے میں زندہ نہیں رہنا چاہتی، ظاہر ہے اس نے ساری زندگی اسی معاشرے میں گزارنی ہے وہ تمام عمر اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں کا جواب کیسے دے گی؟
ا س طرح کا ایک دوسرا واقع وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے آبائی علاقے تونسہ شریف میں پیش آیا جہاں گھر میں گھس کر دوبچوں کی ماں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور ملزم فرار ہو گئے۔ یہ عورت بھی دھاڑیں مار مار کر ورد کر رہی تھی مجھے مار دیا جائے میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ لیکن افسوس کے اس سرائیکی وسیب کی عورت کے بارے نہ تو سرائیکی وسیب کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کوئی ایکشن لیا نہ کسی دوسرے سیاستدان نے جو اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ ابھی بھی سرائیکی وسیب سے تخت لاہور کی حکمرانی نہیں چھوٹی۔کتنا بڑا المیہ ہے اس وسیب کیلیے اس عورت کے ملزموں کی نشاندہی کرنے والوں کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب نے 25 لاکھ روپے بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے مگر تونسہ شریف میں گینگ ریپ ہونے والی عورت کیلیے لفظ مذمت بھی نہیں کہا جاسکا۔
اس طرح کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں ان میں سے کچھ واقعات تو میڈیا تک پہنچ پاتے ہیں لیکن کچھ باتیں غربت، بے چارگی، احساس ذلت، رسوائی یا مجرموں کی طاقت کے خوف سے میڈیا تک بھی نہیں پہنچ پاتیں۔ عمران خان صاحب آپ نے قطر واپسی پر ساہیوال کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا مگر وہ باعزت بری ہو چکے ہیں، آپ نے پولیس ریفارمز کی اصلاح کرنی تھی یہاں تو آئے روز پولیس ظلم کی انتہا کر رہی ہے، جھوٹے پرچے کرکے تشدد نہ کرنے پر لوگوں سے پیسے بٹورے جارہے ہیں جو پیسے نہیں دیتے ان کو ٹارچر کرکے تشدد کرکے کرنٹ لگا کر مار دیا جاتا ہے۔
مارنے والے کچھ دنوں بعد باعزت بری ہوکر کرسیوں پر براجمان ہو کر دوبارہ کسی کی زندگی کے ساتھ کھیلنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب آپ تو اے ٹی ایم چور صلاح الدین کے ملزموں کو بھی سزا نہیں دلوا سکیم، آپ نے ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو نشان عبرت بنانا تھا لیکن ان مجرموں کیلیے بھی آپ کی حکومت کچھ نہ کر سکی۔آج ہماری مائیں بہنیں بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، مجبوری کے عالم میں روڈ پر چلتا ہوا مسافر محفوظ نہیں، حتیٰ کہ گھر میں سوئی ہوئی کسی کی ماں بیٹی بہن ان درندوں سے محفوظ نہیں۔
پورے ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے، رشوت خوری عروج پر ہے، چوروں ڈکیتوں کا راج ہے، شراب نوشی عام ہے، قتل و غارت عروج پر ہے معصوم بچے بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، مہنگائی کی وجہ سے غریب خودکشیاں کررہے ہیں پھر ہم کیسے مانیں کہ یہ ریاست مدینہ ہے!!