|

وقتِ اشاعت :   September 15 – 2020

ترقی کا تعلق روزمرہ زندگی کے تمام تر سہولیات کی فراہمی سے ہے۔ بلاشبہ اکیسویں صدی کو دنیا کا جدید ترقی یافتہ دور کہا جا رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ قومیں جدید ترقی سے بہتر انداز میں بہرہ مند ہو رہی ہیں اور ساتھ تر قی یافتہ ممالک کے لوگوں کو جدید ہسپتالوں میں جدید طرز علاج بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں تعلیم کے میدان میں انقلاب آچکا ہے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث تمام بچوں کو آن لائن ایجوکیشن فراہم کی جاتی رہی لیکن پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ترقی کے اب تک معیار کا تعین تک نہیں ہو سکا ہے۔

صوبے میں علاج معالجہ کی سہولیات کا اندازہ اس امر سے لگاسکتے ہیں کہ ہسپتالوں میں ادویات تو کجا سرینج قینولا بینڈیج تک میسر نہیں جبکہ آپ صوبے کے دارالحکومت کے دو بڑے ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ ہسپتال کیا اکیسویں صدی کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں بالکل جدید ترقی صوبے کے ان ہسپتالوں کو دیکھ کر خود ہی شرمندہ ہو جائے گی۔ آپ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کی حالت زار دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ بلوچستان کے اربوں روپے تعلیم وصحت کی بہتری اور مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے خرچ کئے جا رہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ان شعبوں میں بہتری کے بجائے مزید بدحالی اور تنزلی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کو اندورن بلوچستان کے ہسپتالوں میں سوائے چند ڈاکٹرز کے باقی امراض کے ڈاکٹرز ملیں گے ہی نہیں۔ پورے بلوچستان میں سوائے چند اضلاع کے باقی پورے صوبے میں انٹرنیٹ کی فراہمی بند ہے کہاں آن لائن ایجوکیشن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں غربت کی شرح صوبے کی عدم ترقی بیروزگاری اور پسماندگی کی طرح بہت ہی زیادہ ہوتی جا رہی ہے بلوچستان کے کل چار قومی شاہراہیں ہیں۔

چاروں وفاق کی مہربانیوں اور صوبائی حکومت کی خاموشی اور غفلت کے باعث اب تک دو رویہ نہیں بن سکے ہیں اور نہ ہی صوبے نے ان کی بہتری کیلئے کوئی خاص اقدامات کئے ہیں۔ یہی قومی شاہراہیں دراصل بلوچستانیوں کے اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ حادثات روز کا معمول بن چکے ہیں اتنے بیماریوں، قبائلی جھگڑوں میں ہلاک نہیں ہوتے جتنے افراد ان روڈ حادثات میں جان بحق ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک و صوبے کے حکمران اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور گونگے بہرے اپوزیشن نے اس مسئلے پر کبھی کوئی آواز بلند کی ہو یا پھر وزیر اعظم سے ملاقات کرکے ان قومی شاہراوں کو ڈبل لین کرنے کا مطالبہ کیا ہو۔

ان اراکین اسمبلی اور اپوزیشن کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ اپنے فائدے والے منصوبے منظور کرائیں انہیں عوام کی نہیں بلکہ اپنے فائدے کی سب سے زیادہ فکر ہے جبکہ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ صوبائی حکومتی وزراء، اراکین صوبائی اسمبلی،ترجمان صوبائی حکومت کی روزانہ کی بیان بازیوں سے اور ترقیاتی منصوبوں کی بدولت عوام کی تقدیر بدل چکی ہے۔ بلوچستان اب ترقی سے ہمکنار ہو چکی ہے جس سے عوام کے معیار زندگی میں انقلاب آ چکا ہے۔تاہم حکومتی دعوے صرف اور صرف عوام کے ساتھ ڈرامہ بازی ہے بلوچستان اب بھی ترقی کے ثمرات سے کوسوں دور ہے۔

صوبے کے عوام ناقص اور مضر صحت پانی پینے سے مختلف خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں بلوچستان کے تمام اضلاع میں ہیپاٹائٹس خطرناک حد تک پھیلتا جا رہا ہے، صوبے میں ترقی کاغذوں اور فائلوں میں ضرور ہو رہی ہوگی اور حکمران عوام کی طرح ان ترقی کے فائلوں پر ہرگز ڈرامہ بازی نہیں کریں گے۔ صوبے بھر میں ایک بہترین ہسپتال تک نہیں اور نہ ہی تعلیمی ادارے ہیں آپ بلوچستان کے تعلیم وصحت سمیت تمام محکموں کی حالت زار دیکھ کر خود ہی ترقی کو کوسنے پر مجبور ہونگے۔ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج اور سول ہسپتال کا حشر دیکھیں آپ کو یہ شفاخانے کم بلکہ موت کے اڈے یا کنویں زیادہ لگیں گے۔

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں نہ تو میرٹ ہے اور نہ ہی بہترین گورننس۔ اگر ملکی میڈیا بلوچستان کو کوریج کرتا تو خود ترقی کا حشر عوام دیکھتے تو حیران رہ جاتے۔ بلوچستان میں ترقی صرف دو اداروں میں بہت زیادہ ہو رہی ہے ایک صوبائی اسمبلی کے ممبران، وزراء، مشیران، معاونین خصوصی جبکہ دوسرے بلوچستان سیکرٹریٹ، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ،گورنر سیکرٹریٹ میں ہو رہی ہے ان مذکورہ اداروں کے متعلقہ ذمہ دار ترقی کے ثمرات سے ہی بہترین انداز میں مستفید ہو رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ستر سالوں سے بلوچستانیوں کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کے نام پر ڈرامے بازی کر رہی ہیں۔

ان ستر سالوں میں بلوچستان میں ترقی کے بجائے پسماندگی عدم ترقی اور محرومیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ بلوچستان میں روز بروز غربت اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اگر کسی بھی سرکاری محکمے میں چند اسامیوں کااشتہار آئے تو ہزاروں لوگ کاغذات جمع کراتے ہیں ان ہزاروں بیروزگاروں کی شرح سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان پر مسلط حکمران ہی بلوچستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ بلوچستان کی بدحالی ان اراکین اسمبلی کی وجہ سے ہی ہے ستر سالوں سے ہمارے قانون ساز ادارے صوبے کے عوام کے خزانے پر ڈاکے ڈالتے رہے ہیں۔

اور آج تک ان قومی خزانہ لوٹنے والوں کا کوئی طاقت ہاتھ روک نہیں سکا ہے کیا یہ اراکین اسمبلی اتنے طاقتور ہیں یا پھر اس حمام میں سب ننگے ہیں اسی وجہ سے نہ تو نیب ایکشن لے رہا ہے اور نہ ہی تحقیقاتی ادارے اس عجب کرپشن کی غضب کہانی پر کوئی حرکت کر رہے ہیں۔ تاہم عوام اللہ کے آسرے اور حکمرانوں کی ڈرامہ بازی پر یقین کرکے ان حکمرانوں کی جی حضوری اور تعریف و توصیف میں ہی مصروف ہیں۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان کے عوام اس سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں کہ وزیر اعظم کراچی کی طرح بلوچستان کی پسماندگی اور احساس محرومی کے خاتمے کیلئے بھی بڑے پیکج کا اعلان کریں گے۔

اور ہمارے اراکین اسمبلی وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی وزیر اعظم کو صوبے کی ترقی کیلئے پیکج پر آمادہ کریں گے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کیلئے وزیراعظم نے کچھ اعلان نہ کرکے ہمارے حکمران پارٹی اور اتحادیوں سمیت عوام کو بھی حسب سابق جی حضوری پر گزارہ کرنے پرمجبور کر دیا لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت وزیر اعظم کے دورے کو کامیاب بتا کر اپنا مستقبل روشن کرنے میں مصروف ہیں،صوبہ اور عوام کو کون پوچھتا ہے ایک بار پھر ترقی کے نام پر نئے دعوے اور وعدے کرکے عوام کو ٹرخایا جائیگا اور یہ سلسلہ تاقیامت بلوچستان کے ساتھ روا رکھا جائے گا۔